1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈی آٹھ گروپ کی ملاقات اور مستقبل کی منصوبہ بندی

10 جولائی 2010

ترقی پذیر اسلامی ممالک کے گروپ D8 کے اجلاس کے ایک روز بعد یعنی جمعہ کو نائجیریا کے صدرگُڈ لک جوناتھن اور اُن کے ترک ہم منصب عبداللہ گُل نے دوطرفہ مُذاکرات کئے۔

https://p.dw.com/p/OFdM
نائجیریا کے صدرگُڈ لک جوناتھنتصویر: AP

اس موقع پر ترکی اوراسرائیل کے مابین کچھ عرصے سے پائی جانے والی غیر معمولی کشیدگی کا موضوع زیر بحث رہا۔ حال ہی میں غزہ کے لئے امدادی بحری قافلے ’فلو ٹیلا‘ پر اسرائیلی حملے کے بعد سے انقرہ اور تل ابیب حکومت کے درمیان سیاسی اور سفارتی تناؤ شدت اختیار کر گیا تھا۔

اس حملے کے نتیجے میں 9 ترک امدادی کارکن، جس میں ایک ترک نژاد امریکی باشندہ بھی شامل تھا جاں بحق ہوئے تھے۔ ترکی نے فلوٹیلا پر اسرائیلی کمانڈوز کے حملے اور اُس کے نتیجے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات پر سخت احتجاج کیا تھا۔ عبداللہ گُل نے نائجیریا کے صدر کے ساتھ ملاقات میں ترکی اور نائجیریا کے تعلقات کو مضبوط تر بنانے پر زور دیا۔

Der türkische Außenminister und Presidentschaftskandidat Abdullah Gül
ترک صدر عبداللہ گلتصویر: AP

نائجیریا آج کل اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی صدارتی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہے۔ ترکی نائجیریا کے ساتھ اپنے اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو بھی فروغ دینا چاہتا ہے اور اس افریقی ملک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ 150 ملین کی آبادی پر مشتمل ملک نائجیریا اگرچہ تیل کے قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے تاہم اسے ایندھن اوربجلی کی قلت کا سامنا ہے۔

ترک صدر نے ایک بیان میں کہا،’ سیاسی رہنما اورمدبر ہونے کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون اور اشتراک عمل کو فروغ دیں‘۔

اس اجلاس میں پاکستان سمیت آٹھ ترقی پذیر ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ D8 گروپ کا صدر دفتر استنبول میں قائم ہے اور اس میں بنگلہ دیش، مصر، انڈونیشیا، ایران ، ملائیشیا، پاکستان نائجیریا اور ترکی شامل ہیں۔

Mahmud Ahmadinedschad
ایرانی صدر محمود احمد نژادتصویر: AP

ابوجا منعقدہ اس اجلاس میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کی شرکت اور اس موقع پر ان کے بیانات کو غیر معمولی اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ان کے ملک پر لگنے والی پابندیوں سے تہران کے جوہری پروگرام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے احمدی نژاد نے کہا’ یہ قراردادیں محض کاغذوں پر درج ہیں، ان سے ایران اپنے جوہری مؤقف سے رتی برابر بھی نہیں ہٹے گا‘۔

ابوجا میں D8 گروپ کے نمائندوں نے عالمی سطح پر پائی جانے والی کساد بازاری اور تغیر ماحولیات کے منفی اثرات کے موضوعات پر بھی بات چیت کی۔ اس اجلاس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیے میں تمام 8 رکن ممالک پر زور دیا گیا کہ وہ تجارتی قوانین میں نرمی لائیں اور توانائی کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ اشتراک عمل اور تعاون کا مظاہرہ کریں۔

رپورٹ: کشور مصطفٰی

ادارت: عاطف بلوچ