1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈوب کر ہلاک ہونے والے ايلان کا والد : قصور وار يا بے قصور؟

عاصم سليم12 فروری 2016

گزشتہ برس ترک ساحل پر ايلان کردی کی لاش کی تصوير دنيا بھر ميں مہاجرين کے بحران کی علامت بن کر سامنے آئی تھی۔ ترکی ميں اس بچے کے والد اور دو مشتبہ انسانی اسمگلروں کے خلاف پناہ گزينوں کی ہلاکت کا سبب بننے پر مقدمہ جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/1HuGv
تصویر: picture-alliance/AP Photo/DHA

مغربی ترکی کے شہر بودرم ميں گزشتہ روز شامی شہريوں موافاقہ الاباش اور عصيم الفرحاد کے خلاف مقدمے کی سماعت ہوئی۔ ان مشتبہ انسانی اسمگلروں پر پناہ گزينوں کی اسمگلنگ اور پانچ افراد کی ہلاکت کی فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ جرائم ثابت ہونے پر انہيں کرمنل کورٹ کی جانب سے پينتيس برس تک کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ان دونوں کے علاوہ ايلان کردی کے والد عبداللہ کردی کے خلاف بھی ان کے غير موجودگی ميں يہ مقدمہ جاری ہے۔

ستمبر سن 2015 ميں ايک ترک ساحل پر پڑی تين سالہ ايلان کردی کی لاش کی تصوير نے مہاجرين کے بحران کو دنيا بھر ميں ايک انسانی علميے کے طور پر منوانے ميں مدد دی تھی۔ ايلان اپنے والدہ ريحانہ اور چار سالہ بھائی غالب کے ہمراہ کشتی کے ايک حادثے ميں ہلاک ہو گيا تھا۔ حادثے کے وقت يہ لوگ شامی خانہ جنگی سے فرار ہو کر غير قانونی طريقے سے يونان پہنچنے کی کوششوں ميں تھے۔

تاحال يہ واضح نہيں کہ عبداللہ کردی کے خلاف کن الزامات کے تحت مقدمہ چلايا جا رہا ہے۔ دونوں ديگر ملزمان نے الزام عائد کيا ہے کہ عبداللہ بودرم ميں انسانوں کی اسمگلنگ ميں کافی سرگرم رہا ہے۔ ان کے بقول حادثے کے وقت وہ کشتی چلا رہا تھا اور وہ متعدد ہلاکتوں کا ذمہ دار ہے۔ تاہم ايک ترک نيوز ايجنسی کے مطابق عدالت نے عبداللہ کردی کے خلاف قانونی کارروائی بغير کوئی وجہ بتائے ترک کرنے کا فيصلہ کر ليا ہے۔ تاحال اس بارے ميں زيادہ تفصيلات مہيا نہيں۔

ايلان کردی کا والد عبداللہ کردی
ايلان کردی کا والد عبداللہ کردیتصویر: Reuters/G. Gurbuz

ترکی ان دنوں غير قانونی طريقہ کار سے يورپ پہنچنے کے خواہاں شامی، عراقی، افغان، پاکستانی، اريترين اور ديگر ممالک کے تارکين وطن کی ايک گڑھ بن چکا ہے۔ گزشتہ برس نومبر ميں انقرہ حکومت کی يورپی يونين سے ايک ڈيل طے پائی تھی جس کے تحت ترک حکام انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے يورپ پہنچنے والے غير قانونی مہاجرين کی تعداد ميں کمی متعارف کرانے کی کوشش کريں گے۔ اس کے بدلے ترکی کو اپنے ہاں موجود تقريباً بائيس لاکھ شامی تارکين وطن کی ديکھ بھال کے ليے تين بلين يورو ديے جانا ہيں۔

يورپی يونين کے ساتھ معاہدے اور موسم سرما کے باوجود ايسا معلوم ہوتا ہے کہ مہاجرين کا ترکی کے راستے يونان آمد کا سلسلہ رک نہيں رہا۔ اب بھی يوميہ بنيادوں پر قريب دو ہزار پناہ گزين يونانی ساحلوں تک پہنچ رہے ہيں۔ ايتھنز حکام غور کر رہے ہيں کہ آيا ترکی کو ايک ’محفوظ تيسرا ملک‘ قرار دے ديا جائے۔ ايسا کرنے سے ايتھنز حکام کو يہ اختيار حاصل ہو گا کہ وہ ترکی سے آنے والے پناہ گزينوں کو واپس بھيج سکيں۔ البتہ تاحال اس بارے ميں کوئی حتمی فيصلہ نہيں کيا گيا۔