ڈرون کی واپسی کے مطالبے کے بجائے معافی مانگی جائے، ایران
14 دسمبر 2011ایرانی حکومت نے چار دسمبر کو اعلان کیا تھا کہ اس نے ایک امریکی ڈرون طیارے کو ملکی سرحدوں میں داخل ہونے کے بعد اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ بعد ازاں تہران نے اس ڈرون طیارے کی تصاویر سرکاری ٹیلی وژن پر جاری کر دیں۔ پیر کو امریکی صدر باراک اوباما نے مطالبہ کیا کہ تہران یہ ڈورن طیارہ واپس کر دے۔
صدر باراک اوباما کی طرف سے کی جانے والی اس اپیل کے بعد ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان رامین مهمانپرست نے ایک پریس کانفرنس میں کہا: ’یوں معلوم ہوتا ہے کہ ڈرون طیارہ واپس کرنے کا مطالبہ کرتے وقت صدراوباما یہ بھول گئے کہ ہماری سرحدی حدود کی خلاف وزری کی گئی۔ ایک جاسوس مشن کا اہتمام کیا گیا، جوعالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔‘
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا: ’ اس جرم پر سرکاری طور پر معافی مانگنے کے بجائے امریکہ کی طرف سے ڈرون طیارے کی واپسی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ایرانی سرحدوں کی خلاف وزری دنیا کی سلامتی اور امن کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔‘
ایرانی سرکاری خبر ایجنسی نے وزیر دفاع احمد وحیدی کے حوالے سے بتایا ہے کہ ڈرون طیارہ اب تہران حکومت کی ملکیت ہے اور ایرانی حکومت ہی فیصلہ کر سکتی ہے کہ اس کا کیا کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی فوج کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام اور سرحدوں کی حفاظت کرے۔
جدید ٹیکنالوجی کے حامل RQ-170 امریکی ڈرون طیارے کو اپنے قبضے میں کرنے سے متعلق ایرانی ذرائع ابلاغ میں متضاد خبریں سامنے آئی ہیں۔ سب سے پہلے کہا گیا تھا کہ اس ڈورن طیارے کو ایرانی سرحدوں میں داخل ہونے پر مار گرایا گیا، پھر کہا گیا کہ اسے پر فائر کیا گیا اور جب وہ زمین پر گرا تو فوج نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور آخر میں کہا گیا کہ ایرانی فوج کے الیکٹرانک وار فیئر ڈیپارٹمنٹ نے ڈرون طیارے کے الیکٹرانک نظام پر کنٹرول حاصل کرکے یعنی اسے ہیک کر کے اسے زمین پر اتار لیا۔ تاہم آزاد ذارئع سے ان خبروں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
ادھر واشنگٹن میں ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اہم قانون دان مائیک راجرز نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ڈرون طیارہ فنی خرابی کے باعث ایرانی حکام کے ہاتھ لگا۔ امریکی ہاؤس کی اینٹلی جنس کمیٹی کے چیئر مین راجرز نے ایرانی حکومت کے ایسے تمام تر دعووں کو مسترد کر دیا ہے کہ اس کی فوج نے اس ڈورن پر حملہ کر کے اسے اپنے قابو میں لیا۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: ندیم گِل