1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈالر کی بڑھتی قدر، افغانوں کی مشکلات بڑھاتی ہوئی

شادی خان سیف، کابل24 نومبر 2015

جنگ زدہ ملک افغانستان کی حکومت اور عوام ان دنوں ملکی کرنسی کی قدر میں گراوٹ کے باعث پیدا شدہ مسائل سے نبرد آزما ہیں، جس نے بالخصوص خوراک اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو خاصا بڑھا دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HBq4
تصویر: AP

عمومی سوچ کے برعکس افغانستان کے مسائل محض جنگ و بد امنی تک ہی محدود نہیں۔ ہندوکش کی یہ ریاست کئی دہائیوں سے جاری خانہ جنگی جیسی کیفیت کے پہلو میں آہستہ آہستہ تعمیر نو کا سفر بھی طے کر رہی ہے۔ طالبان دور کے خاتمے کے بعد سے انتظامی ڈھانچہ مغربی امداد پر تکیہ کیے ہوئے ہے، جس باعث امریکی کرنسی ڈالر کا عمل دخل یہاں کے اقتصادی ڈھانچے میں کئی دیگر علاقائی ممالک کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ بہت سے اداروں میں اب بھی ماہانہ اجرت اور مرکزی شہروں میں بڑے تجارتی سودے ڈالر ہی میں طے پاتے ہیں۔

ایک سال میں افغانی کرنسی کے مقابلے امریکی ڈالر کی قیمت قریب 20 فیصد بلند ہوئی ہے۔ چونکہ افغانستان بنیادی طور پر درآمدات پر انحصار کرنے والا ملک ہے لہٰذا ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قدر میں گراوٹ تجارت کے حوالے سے براہ راست طور پر نقصان کا سبب بنتی ہے۔ دنیا بھر کی طرح افغان تاجر و حکومت بھی مستقبل بنیادوں پر علاقائی و عالمی سطح پر تجارتی لین دین کے لیے ڈالر کے محتاج ہیں اوپر سے ملکی اقتصادی نمو کی شرح جو گزشتہ ایک دہائی کے دوران دس فیصد سے بھی بلند تھی اب دو فیصد سے نیچے پہنچ چکی ہے۔

افغانستان میں مزدوروں کی مرکزی تنظیم (ادارہ ملی کارمندان افغانستان) ’امکا‘ نے ایسے حالات میں منجمد تنخواہوں کو غریب کی موت سے تعبیر کیا ہے۔ اس تنظیم کے سربراہ معروف قادری کے بقول اجناس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور تنخواہیں وہیں کی وہیں، ’’یہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ عوام کو مہنگائی کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے پائیدار پالیسیاں بنائے اور ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرے۔‘‘

افغانستان کے بعض مشرقی و سرحدی علاقے مثال کے طور پر قندہار اور جلال آباد میں جہاں پاکستانی کرنسی بھی رائج ہے، ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت مہنگائی کی حالت قدرے مختلف ہے۔

کابل چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر خان جان الکوزئی کے بقول ٹرانزٹ ٹریڈ افغانستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی جانب سے افغانستان کو زمینی راستے کے ذریعے بھارت کے ساتہ براہ راست تجارت کی اجازت نہ دینے کو بھی افغانستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ قرار دیا۔

افغان حکومت کے مطابق اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر قریب 35 ارب ڈالر کے قریب ہیں
افغان حکومت کے مطابق اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر قریب 35 ارب ڈالر کے قریب ہیںتصویر: AP

بعض مبصرین البتہ کہتے ہیں کہ قریب ایک دہائی تک ایک لاکھ سے زائد غیر ملکی فوجیوں و سویلین کی افغانستان میں موجودگی مثالی اقتصادی نمو کا سبب بنی ہوئی تھی اور اب چونکہ یہ تعداد دس ہزار کے لگ بھگ ہوچکی ہے تو اس کے معیشت پر اثرات بھی ناگزیر ہیں۔

افغانستان کا مرکزی بینک ’د افغانستان بانک‘ کرنسی کی قدر کو مستحکم رکھنے کے لیے مجبوراﹰ ہفتہ وار بنیادوں پر لاکھوں ڈالر اوپن مارکیٹ کو سپلائی کر رہا ہے۔ اس بینک کے گورنر خلیل صدیق کے بقول داخلی عوامل کے ساتہ ساتہ خود امریکا کی اقتصادی قوت میں اضافہ بھی کئی دیگر ممالک کی کرنسیوں کی طرح افغانی کرنسی کی قدر میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔

افغان حکومت کے مطابق اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر قریب 35 ارب ڈالر کے قریب ہیں۔

واضح رہے کہ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی اور روزگار کی امریکی منڈی میں قریب تیس لاکھ نئے مواقعوں کا پیدا ہونا ایسے عوامل ہیں جنہوں نے ڈالر کی مانگ بڑھا دی ہے اور یوں افغانستان سمیت کئی ممالک کو ڈالر کے لالے پڑگئے ہیں۔