1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چیک جمہوریہ : منشیات کے’استعمال‘ کی اجازت

19 جنوری 2010

یکم جنوری سن دو ہزاردس سے ایک نئے قانون کا اطلاق ہوا ہے، جس کے تحت یہ طے کیا گیا ہے کہ کون سی منشیات کس مقدار میں ذاتی استعمال کے لئے لی جا سکتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/LZrQ
تصویر: AP

مشرقی یورپی ملک چیک ریپبلک ہمیشہ سے منشیات کے معاملات میں بہت لبرل رہا ہے۔ یکم جنوری سن دو ہزاردس سے ایک نئے قانون کا اطلاق ہوا ہے، جس کے تحت یہ طے کیا گیا ہے کہ کون سی منشیات کس مقدار میں ذاتی استعمال کے لئے لی جا سکتی ہیں۔ اس کی ایک باقاعدہ فہرست تیار کی گئی ہے۔ دیگر یورپی ممالک مثلاً ہالینڈ کے مقابلے میں چیک ریپبلک میں حشیش اورہیروئن کی کہیں زیادہ مقدار کے استعمال کی اجازت ہے۔ اس کے باوجود چک ریپبلک کے کئی باشندوں کے خیال میں یہ قانونی آزادی کافی نہیں ہے جبکہ دیگر شہریوں کو یہ تشویش اور خدشات لاحق ہیں کہ کہیں چیک جمہوریہ کا دارلحکومت پراگ دوسرا ایمسٹرڈم نہ بن جائے۔

پراگ کے کلب ’اُویزد‘ کا ماحول بڑا پرسکون ہے۔ سہ پہر ہی سے یہاں نوجوان باشندے بارمیں اکٹھے ہوتے ہیں، بیئراورخود اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے سگریٹ پیتے ہیں اوراس ہال کی فضا کو ایک خاص قسم کی بہت تیز بُو سے آلودہ کر دیتے ہیں۔ یہ مخصوص مہک حشیش کی ہوتی ہے۔ اس کلب کے مینیجرMartin Kmoch کے لئے یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ چیک ریپبلک میں منشیات کے نئے قوانین نافذ ہو گئے ہیں، جن سے اُس کا کاروبار سہل ہو گیا ہے۔

ایک چھبیس سالہ نوجوان لاڈیسلاؤ پراگ کے کلب ’اُویزد‘ کا ایک مستقل صارف یا پرمینینٹ کسٹمرہے۔ اس کے بقول اس کے لئے یہ نیا قانون کسی لحاظ سے بھی محدود کرنے کا باعث نہیں ہے کیونکہ حشیش اور ہیروئن کی جتنی مقدار کی اجازت اب مل گئی ہے، وہ بہت ہے۔ یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی شخص واقعی 15 گرام ’ماری یوانا’ لے سکتا ہے۔

نئے قوانین کے اطلاق کے بعد سے چیک ریپبلک کا شمار یورپ کے سب سے زیادہ لبرل ممالک میں ہونے لگا ہے۔ یکم جنوری کے بعد سے اس ملک میں نہ صرف حشیش اور’ماری یوانا‘ کی ایک مخصوص مقدار کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے بلکہ مزید سخت نوعیت کی مُنشیات سے تیار کردہ Ecstasy 4 یا LSD 5 ٹیبلیٹس، ایک گرام کوکین یا ڈیڑھ گرام ہیروئن لینے کی بھی اجازت دے دی گئی ہے۔ یہ مقدار ہالینڈ کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ اس قسم کے قوانین کے نفاذ کی دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ منشیات کی عادت صحت کا مسئلہ ہے، کوئی مجرمانہ عمل نہیں۔

چیک جمہوریہ کے انسداد منشیات کے ادارے کے ڈائریکٹر یاکوب فریڈرک کا کہنا ہے : ’’اگر’ماری یوانا‘ کی مثال لی جائے تواُس کی تیاری اب بھی قابل سزا جرم ہے تاہم اسے اپنے پاس رکھنا نہیں، جب تک کہ اس کی مقدار مختص شدہ حد سے تجاوز نہ کرے۔ نئے قوانین کا مقصد مُنشیات کا کاروبار کرنے والوں کو چھوٹ دینا نہیں ہے، یہ عمل قابل سزا ہی رہے گا، چاہے کتنی ہی مقدار میں اس کی فروخت کی جائے"۔

تاہم بہت سے ناقدین ان نئے قوانین سے بہت مایوس نظرآ رہے ہیں۔ ایک ماہر نفسیات ’Ivan Douda ‘ نے 20 سال قبل منشیات کے عادی افراد کی مدد کے لئے ڈراپ اِن نامی ایک ادارہ قائم کیا تھا۔ تب سے یہ پراگ میں نشے کے عادی انسانوں کے لئے کام کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں بھی چیک جمہوریہ میں نافذ ہونے والے نئے قوانین غلط سمت اٹھایا جانے والا قدم ہیں۔ ان کے بقول " یہ امر واضح ہے کہ پولیس کی طرف سے منشیات کی منڈی کو موثر طورپرمنظم کرنے کے امکانات ہرگز نہیں پائے جاتے۔ اس وجہ سے ضرورت اس امر کی تھی کہ منشیات سے متعلق پالیسی میں روک تھام کے اصولوں پر توجہ مرکوز کی جاتی" ۔

رپورٹ : کشور مصطفیٰ

ادارت : عاطف توقیر