چینی صوبے سینکیانگ میں دہشت گردانہ واقعہ
4 اگست 2008چین کا صوبہ سنکیانگ پاکستان کی سرحد سے زیادہ دور واقع نہیں ہے۔ یہاں پر آباد چینی باشندے مسلمان ہیں اور یہ ایغور کہلاتے ہیں۔ اس اقلیتی گروپ کی طرف سے اکثروبیشتر دھشت گردانہ حملوں کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ انکی آبادی پر مُشتمل صوبے سنکیانگ میں چین کی ملٹری پولیس دستے پر ہونے والے حملے کا تعلق براہِ راست اولمپک کھیلوں سے تھا یا نہیں یہ کہنا مشکل ہے تاہم دھشت گردی سے مُتعلق امور کے ایک چینی ماہر Li Wei نے وثوق سے کہا ہے کہ یہ واقع جو سنکیانگ کے علاقے میں رونماء ہوا ، اور یہ کہ یہ ایک دھشت گرد تنظیم کی بہت سوچی سمجھی منصوبہ بندی ہے۔ ملٹری پولیس اس حملے کا نشانہ تھی کیونکہ انکا کام سنکیانگ کی سلامتی و حفاظت کرنا ہے۔
دھشت گردی سے متعلق امور کے چینی ماہر LI Wie گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل انتباہ کر رہے تھے کہ چین کی سلامتی کو سب سے بڑا خطراہ خود اپنی سرزمین کے اندر ہی پائے جانے والے عناصر سے لاحق ہے۔ Li کے مُطابق چین کے لئے سب سے بڑا خطرہ ایغور مسلم باشندوں کا وہ اقلیتی گروپ ہے جو آزادی اور خود مُختاری چاہتا ہے۔
گزشتہ مارچ کے ماہ میں بھی Urumqi سے بیجنگ کی طرف پرواز کرنے والے ایک جہاز کو گرانے کی کوشش بھی ایک ایغوری نسل کی خاتون نے کی تھی۔ تاہم اس منصوبے کو ناکام بنا دیا گیا تھا۔ اب حال ہی میں ایک گروپ جو خود کو ترکستانی اسلامی پارٹی کے نام سے متعارف کرواتا ہے نے اولمپک کھیلوں کے دوران سنکیانگ کے ملٹری پوسٹس پر حملوں کی دھمکی دی تھی۔ چینی ذزائعے کے مُطابق سالِ رواں میں چینی پولیس نے اسیّ سے زائد ایسے باشندوں کو گرفتار کیا ہے جو عالباٍ دھشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث تھے۔ اور اب یہ سب کچھ عین اولمپک کھیلوں کے نزدیک ہو رہا ہے یہ امر چینی ماہر کے لئے تعجب کا باعث نہیں۔ لی کہتے ہیں کہ اولمپک کھیل تمام دنیا۷ کی توجہ کا مرکز بنے ہو۷ے ہیں اس لئے یو دھشت گردوں کے لئے بہترین موقع ہے۔
اولمپک کھیلوں کے دوران امن عامہ کی صورتحال پر قابو رکھنے کے لئے بیجنگ حکومت نے تمام تر ضروری اقدامات کیے ہیں۔ سلامتی کے نگراں اداروں کے اہلکاروں کی خصوصی تربیت ، بیجنگ کی طرف جانے والی ہو موٹر گاڑی کی چھان بین کا انتظام، تمام شہر میں سکیورٹی کیمروں کی تنصیب اور چینی فوج کو چوبیس گھنٹے الرٹ رہنے کا حکم۔ چین ممکنہ دھشت گردانہ حملوں سے بچاؤ کے لئے تمام تر اقدامات کر رہا ہے۔
یہاں تک کہ اپوزیشن لیڈروں اور بیجنگ حکومت کے ناقدین، مشتعل کسانوں اور تبتییوں کے ممکنہ مُظاہروں کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوششیں کی جا رہی ہیں۔
تاہم چین اتنا بڑا ملک ہے کہ بیجنگ کی تمام تر کوششوں کے باوجود مُختلف حصوں میں ممکنہ حملوں پر قابو پانا آسان نہیں ہے۔ دھشت گردی سے متعلق امور کے ماہو Li Wei کا کہنا ہے کہ چین کے اندر اتنے زیادہ معشرتی تنازعات اور اختلافات پائے جاتے ہیں اور یہ معاشرہ اتنی تیزی سے ترقی کر رہا ہے کہ یہاں انسانوں کے اندر ایکدوسرے سے مقابلہ کرنے اور اس دوڑ میں ایک دوسزے سے بدلہ لینے کے رجحان کو بھی نظر انداز نہہیں کیا جا سکتا۔
معاشرے میں عدم اطمنان اورعوام میں مایوسی باشندوں کے اندر خود معاشرے سے بدلہ لینے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ اور اس طرح بین الاقوامی دھشت گردوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے لوگ اپنی مایوسی کا اظہار اس قسم کے حملوں کے ذریعے کرنے لگتے ہیں۔