چین نے امریکہ کے ساتھ فوجی تعلقات منجمد کر دئے
30 جنوری 2010چینی وزارت دفاع نے آج ہفتے کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ بیجنگ حکومت واشنگٹن کے ساتھ ایٹمی عدم پھیلاؤ اور ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق مذاکرات روکنے پر بھی غور کر رہی ہے۔
پینٹاگون نے ایک روز قبل امریکی کانگریس کو تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق اپنا منصوبہ پیش کر دیا تھا۔ اس منصوبے پر کانگریس کی منظوری کے بعد ہی حتمی عمل درآمد ہو سکے گا۔ تاہم اس اعلان کے فورا بعد چین نے بیجنگ میں امریکی سفیر کو بلا کر نہ صرف شدید ردعمل ظاہر کیا بلکہ یہ مطالبہ بھی کیا کہ اس منصوبے کو فوری طور پر غیر موثر بنایا جائے۔
پینٹا گون کے اس منصوبے کے مطابق تائیوان کو F16 طیارے، ہیلی کاپٹر اور اینٹی میزائل ڈیفنس سسٹم سمیت جدید دفاعی نظام بیچا جانا ہے۔ تائیوان سے اس فوجی ساز وسامان کی فروخت کا وعدہ سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے کیا تھا۔ امریکی محکمہ خارجہ نے آج ایک بیان میں کہا کہ خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کے پیش نظر تائیوان کی سلامتی اور امن کے لئے تائی پے کو ان ہتھیاروں کی فروخت انتہائی ضروری ہے۔
تاہم چین نے آج ہفتے کو اپنے ردعمل میں نہ صرف امریکہ سے اپنے تمام تر فوجی تعلقات منجمد کردئے بلکہ تائیوان کو 6.4 بلین ڈالر کے یہ ہتھیار فروخت کرنے والی امریکی کمپنیوں پر پابندیاں بھی لگا دیں۔ چینی وزارت دفاع نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ واشنگٹن کے اس اقدام کا اثر دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات سمیت جوہری عدم پھیلاؤ اور دیگر اہم بین الاقوامی معاملات پر بھی پڑے گا۔
اکتوبر 2008ء میں امریکہ اور تائیوان کے درمیان ہتھیاروں کی اس فروخت پر اتفاق رائے کے موقع پر بھی چین نے واشنگٹن کے ساتھ فوجی تعلقات عارضی طور پر منجمد کردئے تھے۔ تاہم بیجنگ میں وزارت خارجہ کے مطابق اس مرتبہ ان پابندیوں کا دورانیہ ’طویل‘ ہوگا۔
چینی وزارت دفاع نے بھی کہا کہ اگر ہتھیاروں کی اس ڈیل پر عمل درآمد ہوا تو اس کا انتہائی منفی اثر دونوں ملکوں کے تعلقات پر پڑے گا۔
چین تائیوان کو اپنا باغی صوبہ قرار دیتا ہے۔ چینی موقف ہے کہ وہ تائیوان پر دوبارہ قبضہ کرلے گا چاہئے اسے اس مقصد کے لئے فوجی طاقت ہی کیوں نہ استعمال کرنا پڑے۔
دوسری جانب وسطی امریکی ممالک کے دورے سے لوٹنے والے تائیوان کے صدرما یِنگ جیوو نے طیارے میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ اس امریکی اقدام سے تائیوان چین کے ساتھ مزید بہتر خود اعتمادی سے مذاکراتی عمل آگے بڑھا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے خطے میں پائیدار امن کے قیام میں مدد ملے گی۔ تائیوان کی وزارت دفاع کی طرف سے جاری کردہ بیان میں بھی اس امریکی منصوبے کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سے تائیوان اور چین کے درمیان جاری مصالحتی عمل میں بہتری پیدا ہوگی۔
وزارت دفاع کے مطابق یہ تمام ہتھیار مدافعانہ نوعیت کے ہیں اور ان کی موجودگی میں تائیوان کی قومی سلامتی کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : مقبول ملک