1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین مہاجرین کی کشتیاں روکنے میں مدد کرے، یورپی یونین

شمشیر حیدر Reuters
4 مئی 2017

یورپی یونین مہاجرین اور تارکین وطن کی یورپ آمد روکنے کے لیے چین سے مدد کی خواہاں ہے۔ یونین کے مطابق سمندری راستے عبور کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی ربڑ کی زیادہ تر کشتیاں چین میں تیار کی جاتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2cODf
Schlauchboot mit Flüchtlingen
تصویر: picture alliance/dpa/C. Hochholzer/Bundeswehr

یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرین دیمیتریس افراموپولوس مہاجرین اور تارکین وطن کو یورپ کا رخ کرنے سے روکنے کے لیے چین کی مدد حاصل کرنے کے لیے چین کے دورے پر ہیں۔ افراموپولوس کے مطابق انسانوں کے اسمگلنگ کرنے والے افراد مہاجرین اور تارکین وطن کو ربڑ کی جن کشتیوں کے ذریعے بحیرہ روم اور بحیرہ ایجیئن کے سمندری راستوں سے یورپ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ کشتیاں چین میں تیار کی جاتی ہیں۔

’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے‘

اس ضمن میں چین کی مدد حاصل کرنے کے لیے انہوں نے آج چار مئی بروز جمعرات بیجنگ میں چینی وزیر برائے پبلک سکیورٹی گواؤ شنگ کُن سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے افراموپولوس کا کہنا تھا، ’’انسانوں کے اسمگلروں کے نیٹ ورک مہاجرین کو یورپ لے جانے کے لیے ربڑ کی کشتیاں استعمال کرتے ہیں۔ یہ کشتیاں چین میں تیار کی جاتی ہیں اور بعد ازاں مختلف ایشیائی ممالک میں برآمد کی جاتی ہیں۔ انسانوں کے اسمگلر انہی کشتیوں کو استعمال کرتے ہیں۔‘‘

مہاجرین سے متعلق یورپی کمشنر کا کہنا تھا کہ وہ اسی سلسلے میں چینی حکام کا تعاون حاصل کرنے کے لیے بیجنگ آئے ہیں۔ افراموپولوس کا مزید کہنا تھا، ’’میں نے چینی حکام سے درخواست کی ہے کہ وہ ایسے کاروبار میں ملوث افراد کا کھوج لگائیں اور اس سلسلے کو روکنے میں مدد کریں۔ یہ کاروبار چینی عوام کے فائدے میں بھی نہیں ہے اور انسانوں کے بے رحم اسمگلروں ان کشتیوں کو اپنے بھیانک مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘

دیمیتریس افراموپولوس نے اس ضمن میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔ چین میں مہاجرین اور تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ چینی وزیر سے اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔

گزشتہ دو برسوں کے دوران لاکھوں تارکین وطن اور مہاجرین بحیرہ روم اور بحیرہ ایجیئن کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کر چکے ہیں۔ ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین کو روکنے سے متعلق معاہدے طے پانے کے بعد ترکی سے یونان کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں تو نمایاں کمی ہوئی ہے تاہم لیبیا اور مصر کے ساحلوں سے اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد اب بھی کافی زیادہ ہے۔

یونان میں چند پیسوں کی خاطر جسم بیچتے پاکستانی مہاجر بچے

بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے کے خوفناک مناظر