1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین ’جنگ‘ نہیں چاہتا لیکن پھر بھی دفاعی بجٹ میں اضافہ

فرانک زیرین / عدنان اسحاق6 مارچ 2014

چینی حکومت نے نیشنل پیپلز کانگریس کے اجلاس میں دفاعی بجٹ میں بڑے پیمانے پر اضافے کا اعلان کیا ہے۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار فرانک زیرین کے بقول چین فوجی بحٹ بڑھا رہا ہے جبکہ اسے کسی کے ساتھ جنگ میں بھی دلچسپی نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/1BL7Y
تصویر: AP

ایک نظر میں تو یہ رقم بہت بڑی دکھائی دیتی ہے۔ چین اس سال اپنا عسکری بجٹ بارہ فیصد بڑھانا چاہتا ہے اور اس کا مطلب 95 ارب یورو کا اضافہ ہے۔ یہ اعلان چینی وزیر اعظم لی کیچیانگ نے عوامی کانگریس کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس اجلاس میں چینی حکومت اپنی سالانہ کارکردگی بیان کرتی ہے اور کانگریس کے نمائندوں کو مستقبل کے اپنے منصوبوں کے بارے میں بتاتی ہے۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار فرانک زیرین کے بقول مغربی ماہرین کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ بیجنگ حکومت کا یہ منصوبہ جاپان کے خلاف اعلان جنگ ہے کیونکہ دونوں ممالک کے مابین بحیرہ جنوبی چین کے معاملے پر آئے دن کشیدگی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور گزشتہ دنوں کے دوران بھی حالات کئی مرتبہ بگڑے۔

China Nationaler Volkskongress in Peking Ministerpräsident Li Keqiang
نیشنل پیپلز کانگریس کے اجلاس میں چینی حکومت اپنی سالانہ کارکردگی بیان کرتی ہے اور مستقبل کے اپنے منصوبوں کے بارے میں بتاتی ہےتصویر: Reuters

جاپان نے ابھی کچھ دن قبل ہی عسکری ساز و سامان پر اضافی رقم خرچ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے خاص طور پر نئی آبدوزیں اور جنگی طیارے خریدنے کا منصوبہ بنایا۔ ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار کے بقول کیا ایشیا کے ان دو بڑے طاقت ور ملکوں کے مابین ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو گئی ہے؟ کیا چین کسی عسکری محاذ آرائی کی تیاری کر رہا ہے؟ وہ مزید کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ چین کسی ایسے تنازعے کا شکار نہیں ہونا چاہتا، جس کے نتائج سے وہ آگاہ نہ ہو اور جو اس کی اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے۔

گزشتہ برس چین نے 148 ارب ڈالر مالیت کی مصنوعات جاپان کو برآمد کی تھیں جبکہ جواب میں چین نے جاپان سے 200 ارب ڈالر کا مال درآمد کیا تھا۔ موجودہ صورتحال میں یہ چین کے مفاد میں ہے کہ وہ خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے مصنوعات دوسرے ممالک میں بنوائے۔ اس وجہ سے فرانک زیرین کا موقف ہے کہ چین کو جنگ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

بیجنگ میں گزشتہ بیس برسوں سے مقیم ڈی ڈبلیو کے یہ تبصرہ نگار مزید کہتے ہیں کہ فوجی ساز و سامان کی مد میں ایک سال میں بارہ فیصد کا اضافہ دیکھنے میں بہت زیادہ لگتا ہے حالانکہ ایسا ہے نہیں کیونکہ2001ء سے2013ء کے درمیان چین اپنے دفاعی اخراجات میں تقریباً 200 فیصد تک کا اضافہ کر چکا ہے۔ اس بارے میں بیجنگ حکومت کا موقف ہے کہ چین میں صرف سماجی نظام، بنیادی ڈھانچے، مالیاتی نظام اور سرکاری اداروں میں ہی بہتری کی ضرورت نہیں بلکہ ملکی فوج کو جدید بنانا بھی لازمی ہے۔ مغربی ماہرین کا اندازہ ہے کہ چین اسلحہ سازی پر سالانہ 100 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے جبکہ امریکا 600 ارب ڈالر سے زائد۔ اس موقع پر ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر ہتھیاروں پر ہی کیوں اتنی بڑی رقم خرچ کی جاتی ہے؟ اس لیے کہ چین ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے اپنے مفادات کی حفاظت بھی کرنا چاہتا ہے!