1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چين ميں انٹرنيٹ ٹيليفون پر حکومتی پابنديوں کا خطرہ

3 جنوری 2011

کوئی نو ماہ قبل google کمپنی کے اس اعلان سے دنيا بھر ميں شور مچ گيا تھا کہ کہ يہ کمپنی انٹرنيٹ سننسر کے چينی ضوابط کی پابندی نہيں کرے گی۔ اب ايک بار پھر اسی قسم کی صورتحال پيدا ہورہی ہے۔

https://p.dw.com/p/zsyS
چين ميں گوگل کا ہيڈ کوارٹرتصویر: AP

چين ميں انٹرنيٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 450 ملين ہے جو دنيا ميں سب سے زيادہ ہے۔ ليکن انٹرنيٹ کی آزاديوں کے سلسلے ميں چين بہت پيچھے ہے۔ اب ايسا معلوم ہوتا ہے کہ چينی حکومت نے انٹرنيٹ کے ذريعے ٹيليفون کرنے پر پابندياں لگانے کا تہيہ کر ليا ہے۔ چينی وزارت اطلاعات کی ويب سائٹ پر يہ پڑھنے کو ملتا ہے، " ہم غير قانونی ٹيليفون سروسز کے خلاف کارروائی کريں گے۔ " اس کے بعد يہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ کيا چين ميں skype يا اس طرح کی دوسری سروسز بند ہو جائيں گی جن کے ذريعے انٹرنيٹ پر ٹيليفون کی طرح دور رہنے والوں سے بات چيت کی جاسکتی ہے؟۔ اگر ايسا ہوا تو اس کا نقصان جانگ يو فان کو بھی ہوگا جن کے بقول، " بيرونی ممالک سے تجارت کرنے والے لوگ اکثر انٹرنيٹ ٹيليفون ہی پر گفتگو کرتے ہيں۔ بہت سے ايسے گھرانے بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہيں جن کے بچے دوسرے ممالک ميں تعليم حاصل کررہے ہيں۔ ميں نے اس کا استعمال اُس وقت سے شروع کيا جب سے ميرا ايک دور کے ملک ميں رہنے والے فرد سے رابطہ ہوا۔ ميں روزانہ انٹرنيٹ پر دو گھنٹوں تک بات کرتا ہوں۔ اگر حکام نے واقعی skype کو بند کرديا تو ميں اپنے انٹرنيٹ کے علم کی مدد سے کوئی اور راستہ ڈھونڈوں گا۔"

NO FLASH Symbolbild Internet Sicherheit
بيجنگ ميں ايک کمپيوٹر اسٹورتصویر: AP

اندازہ ہے کہ اب بھی 10 سے 20 ملين تک چينی انٹرنيٹ کے ذريع ٹيليفون کرتے ہيں۔ اس طرح وہ کافی رقم بچا ليتے ہيں۔ چين سے امريکہ کو عام ٹيليفون تقريباً 70 امريکی سينٹ فی منٹ کا پڑتا ہے۔ ليکن skype پر يہ ٹيليفون دو سينٹ فی منٹ سے بھی کم ميں کيا جاسکتا ہے۔ چين کی سرکاری ٹيليفون کمپنی کو ٹيليفون کے کاروبار سے 70 فيصد آمدنی ہوتی ہے۔صرف چار شہروں ميں آزمائشی طور پر انٹرنيٹ کے ذريع ٹيليفون کی سہولت دی گئی ہے۔ يہ اجازت، skype، google، msn اور سينکڑوں چينی فرموں کے لئے انٹرنيٹ پر ٹيليفون کے کاروبار کا ايک اچھا موقع ہے۔

Veranstaltung über das Internet in China und Iran
چين اور ايران ميں انٹرنيٹ کے بارے ميں برلن کی ايک تقريبتصویر: DW

چين ميں انٹرنيٹ سروسز فراہم کرنے والی بہت سی چھوٹی چھوٹی فرمز ہيں۔ ايک ايسی ہی فرم کے مينيجر نے ہانگ کانگ کے اخبار ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ سے کہا کہ جولائی سن 2009 ميں سنکيانگ کے خونريز ہنگاموں کے بعد ايک ٹيليفون فرم کو حکام نے ہدايت کی کہ وہ انٹرنيٹ ٹيليفون سروسز سے تعارن بند کردے۔ يہ اس کی علامت ہے کہ حکومت کے ناقدين آپس ميں روابط کے لئے انٹرنيٹ ٹيليفون استعمال کررہے ہيں۔

ليکن ايک چينی نے کہا کہ انٹرنيٹ ٹيليفون سروسز زيادہ تر نجی ہاتھوں ميں ہيں اور اس طرح تين بڑی رياستی کمپنيوں کی آمدنی پر اثر پڑ رہا ہے۔ اس ليے يہ ممکن ہے کہ انٹرنيٹ ٹيليفون پر پابندی کا مقصد ان سرکاری کمپنيوں کو تحفظ دينا ہو۔ ليکن اس کا مطلب يہ ہوگا کہ حکومت عام شہريوں اور صارفين کو سہولت دينے کے بجائے خود اپنی کمپنيوں کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے اور اس کے لئے صارفين کو قربانی کی بھينٹ چڑھانے پر تيار ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: کشور مصطفیٰ