1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چرچ ملک بدریاں کیسے رکوا سکتا ہے؟

27 مئی 2018

کلیسا نے جرمن حکومت کے ساتھ سیاسی پناہ کے ایک معاہدے کے تحت 2018ء کی پہلی سہ ماہی میں تقریباً پانچ سو مہاجرین کی ملک بدری روکی ہے۔ مہاجرین مخالف جماعت ’اے ایف ڈی‘ نے کلیسا کے ان فلاحی اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

https://p.dw.com/p/2yOs3
Kirchenasyl
تصویر: Imago/C. Mang

جرمن کلیسا رواں برس کی پہلی سہ ماہی کے دوران ایسے تقریباً پانچ سو مہاجرین کی ملک بدری روکنے یا اس عمل میں تاخیر پیدا کرنے میں کامیاب ہوا ہے، جنہیں جرمنی سے بے دخل کرنے کے احکامات جاری کیے جا چکے تھے۔ یہ نئے اعداد و شمار مسلم اور مہاجرین مخالف جماعت ’آلٹرنیٹو فار جرمنی‘ یعنی اے ایف ڈی کی جانب سے ملکی وزارت داخلہ سے پوچھے گئے ایک سوال نامے کے جواب میں سامنے آئے ہیں۔

تاہم یہ اعداد وشمارکوئی بہت حوصلہ افزاء نہیں ہیں کیونکہ 2017ء میں ایسے تقریباً پندرہ سو واقعات سامنے آئے تھے، جس میں کلیسا کی مداخلت کے بعد ملک بدریاں روکی گئی تھیں۔ اسی طرح 2016ء میں مئی سے دسمبر کے دوران یہ تعداد 527 تھی۔

اے ایف ڈی نے اپنے سوالنامے میں ان مہاجرین کی شہریت بھی معلوم کرنا چاہی تھی تاہم وزارت داخلہ نے ان کی اس درخواست کو مسترد کردیا۔

Oberhausen Kirche Flüchtlingsunterkunft Kinder
تصویر: Reuters/I. Fassbender

تین سال قبل ہجرت اور پناہ گزین کے جرمن ادارے (بی اے ایم ایف)  اور جرمنی کے دونوں بڑے کلیساؤں کے مابین ’چرچ آزائلم‘ ایک ایسا سمجھوتہ طے پایا تھا، جس پر عمل درآمد کرنا لازمی نہیں ہے۔ جرمن وزارت داخلہ کے مطابق اس اتفاق رائے کے تحت، ’’ ڈبلن معاہدے کی رو سے بعض خصوصی کیسز( مسترد شدہ درخواستوں) کی نگرانی و جانچ پڑتال چرچ کے نمائندے کر سکیں گے اور بعد میں اکھٹی کی جانے والی مکمل معلومات ’بی اے ایم ایف‘ میں جمع کرائیں گے تاکہ اس کیس پر نظر ثانی کی جائے۔‘‘ 

جرمنی کے کلیسا اپنی کونسل کے ذریعے مخصوص مہاجرین کو سیاسی پناہ دینے کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور مہاجر کے رہنے اور کھانے کے اخراجات چرچ کے ذمے ہی ہوتے ہیں۔ جرمنی میں جدید چرچ آزائلم تحریک کا آغاز 1983ء میں اس وقت ہوا تھا، جب برلن کی ایک عدالت نے ایک ترک تارک وطن کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور چرچ نے یہ ملک بدری رکوانے کی کوشش کی تھی۔ تاہم بعدازاں اس ترک مہاجر نے خود کشی کر لی تھی۔ اس دور میں ترکی میں فوجی حکومت قائم تھی۔