1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’چالیس لاکھ پاکستانی طالبان کے سائے میں‘

10 جون 2010

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں ’حکومتی بے توجہی‘ کے شکارچالیس لاکھ شہری طالبان کے زیرسایہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

https://p.dw.com/p/Nngt
تصویر: Abdul Sabooh
Logo amnesty international

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ان قبائلی علاقوں میں فوج اور طالبان کی لڑائی میں اب تک سا ڑھے آٹھ ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔

لندن میں قائم انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کی جانب سے پاکستان کے شورش زدہ قبائلی علاقوں کے بارے میں”جیسے مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی ہو“ کے زیر عنوان جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں جنگ کے سبب اب بھی دس لاکھ سے زائد بے گھر افراد کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاررہے ہیں اورانہیں امداد کی سخت ضرورت ہے۔

تاہم پاکستانی فوج نے ایک سو تیس صفحات پر مشتمل ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ کو مسترد کردیا ہے۔

NO FLASH Pakistanische Armee Panzertransport
پاکستانی فوجیتصویر: picture alliance/dpa

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر برائے ایشاء سیم ظریفی نے اسلام آباد میں جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کے دوران فوج اورطالبان، دونوں سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی جنگی قوانین کا احترام کرتے ہوئے قبائلی علاقوں میں عام شہریوں کے علاوہ سکولوں اور ہسپتالوں کی عمارتوں پرحملے نہ کریں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے ردعمل میں پاک فوج کے ترجمان میجرجنرل اطہر عباس نے کہا کہ قبائلی عمائدین اورعوام نے عسکریت پسندوں کے خلاف فوج کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں کی حمایت کی۔ مسٹر عباس کے مطابق قبائلی علاقوں سے ’دہشت گردوں کے خاتمے اور معمول کی زندگی بحال کرنے میں فوج نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔‘

ایمنسٹی کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ طالبان نے اپنے کنٹرول والے علاقوں میں اپنے مخالفین کو منظم تشدد کے ذریعے ہلاک کیا جبکہ فوج کی جانب سے طالبان پر کی گئی گولہ باری کے نتیجے میں بھی کئی عام لوگ مارے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ برس طالبان اور فوج کے درمیان لڑائی کے دوران تیرہ سو افراد ہلاک ہوئے۔

Pakistan Taliban Rally in Bara
پاکستان میں طالبان کی ایک ریلیتصویر: Abdul Sabooh

اس رپورٹ میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فاٹا کی درست صورتحا ل سامنے لانے کے لئے ذرائع ابلاغ کی متاثرہ علاقے تک رسائی ممکن بنائے۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری تنظیموں کو بھی ان علاقوں تک رسائی دی جائے تاکہ زخمیوں اور بے گھر افراد کو خوراک، عارضی رہائش اور طبی امداد فراہم کی جا سکے۔

سیم ظریفی کے مطابق امریکہ کی جانب سے قبائلی علاقوں پر کئے جانے والے ڈرون حملوں پر بھی پاکستان میں نفرت پائی جاتی ہے اورایمنسٹی انٹرنیشنل کا مطالبہ ہے کہ امریکہ واضح کرے کہ وہ کس ضابطے کے تحت یہ حملے کر رہا ہے اور ساتھ ہی ان حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے احتساب کے نظام کو بھی یقینی بنایا جائے۔

اس رپورٹ میں قبائلی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری کے لئے جو سفارشات پیش کی گئی ہیں، ان میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فاٹا میں رائج ’ایف سی آر‘ کا ایک صدی پرانا قانون فوری طور پر ختم کرے۔

دریں اثناء پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے آئین میں انسانی حقوق کو بھر پور تحفظ حاصل ہے اور ملک میں جمہوری دور حکومت میں انسانی حقوق کی صورتحا ل میں نمایاں بہتری آئی ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: گوہر نذیر گیلانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں