1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیٹریاس سیکس اسکینڈل، ہالی وڈ پیسہ بنانے کی کوشش میں

16 نومبر 2012

امریکی فلمی صنعت ہالی وڈ میں آج کل اگر کسی رائٹر کے پاس سابق فور اسٹار جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کے جنسی اسکینڈل کے بارے میں کوئی اسکرپٹ ہے تو وہ کسی کے ساتھ بھی ناشتہ یا لنچ کر سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/16kRu
تصویر: Reuters

گزشتہ منگل سے کئی فلم اسٹوڈیوز کی اعلیٰ شخصیات ایسی ملاقاتوں میں مصروف ہیں، جن میں ایسے اسکرپٹس پر بات ہو رہی ہے، جن پر کوئی فلم بن سکتی ہو۔ اس وقت تک کئی فلمی ایجنٹ طلب کیے جا چکے ہیں اور فلموں کے اسکرپٹ رائٹرز کو مسلسل ای میلز موصول ہو رہی ہیں۔

Ben Affleck
امریکی اداکار بین ایفلیکتصویر: Getty Images

اس بارے میں جُوڈی فارکاس کہتی ہیں کہ یہ موضوع فلم اور کتاب کی سطح پر بے تحاشا دلچسپی کا سبب بنے گا۔ جُوڈی فارکاس ایک ایسی فلمی اور ادبی ایجنٹ ہیں، جنہوں نے مصنف انٹونیو مینڈیس کی کتاب کے فلم سازی کے حقوق بیچنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کتاب کا عنوان Argo تھا اور اس پر مبنی امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ایک مشن کے بارے میں ایک فلم بنی تھی۔ اس فلم میں اداکار Ben Affleck نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

جُوڈی فارکاس کہتی ہیں کہ اب ہر طرف سے فلم اسکرپٹ اور اس سے متعلق کئی طرح کے حقوق کے حصول کے لیے دوڑ شروع ہو جائے گی۔

یہ امکان کافی کم ہے کہ اس موضوع پر مستقبل میں بننے والی کسی فلم کے لیے اس اسکینڈل کے مرکزی کرداروں ڈیوڈ پیٹریاس، ان کی محبوبہ جِل کَیلی یا سوانح عمری لکھنے والی امریکی خاتون پاؤلا بروڈ وَیل میں سے کوئی اس اسکینڈل سے متعلق اپنی معلومات یا حقوق فروخت کرے۔

CIA Direktor General David Petraeus
سی آئی اے کے سابق سربراہ ڈیوڈ پیٹریاستصویر: Karen Bleier/AFP/Getty Images

اس لیے یہ امکان بھی کافی کم ہے کہ اس موضوع پر فلم بنانے والے کسی بھی ادارے کو اس اسکینڈل کی وہ تمام اندرونی تفصیلات حاصل ہوں گی، جن کی مدد سے کوئی بھی فلم بہت کامیاب بنائی جا سکتی ہے۔

امریکا میں ڈاکومنٹری ڈرامہ فلموں کے کئی ایجنٹوں کا کہنا ہے کہ اگر مرکزی کرداروں میں سے کسی نے اس اسکینڈل سے متعلق اپنے حقوق فروخت نہ کیے، تو پھر فلم جس کہانی پر بنے گی، وہ ذرائع ابلاغ کی سرخیوں سے حاصل ہونے والی معلومات کی مدد سے تیار کردہ ہو گی۔ ان ایجنٹوں کے مطابق ایسی صورت میں فلم اسٹوڈیوز کے مالکان نروس ہو جائیں گے، خاص طور پر اس وقت جب وہ لوگوں کی نجی زندگی کو ڈرامے کی صورت میں پیش کرنا چاہیں گے۔

امریکا میں فلم اور تفریحی صنعت کی مختلف شخصیات اور بڑے بڑے اداروں کے لیے قانونی مشیر کا کام کرنے والے وکیل جے کُوپر کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر ایسی کسی فلم کا نام General Strangelove بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس فلم کو اگر سینما کی بجائے ٹیلی وژن فلم کے طور پر تیار کیا جائے تو یہ کام ایک سال سے بھی کم عرصے میں ممکن ہو سکے گا۔

ہالی وُڈ کے پروڈیوسر کرِس آرمسٹرانگ کہتے ہیں کہ اس اسکینڈل میں وہ سب کچھ ہے، جس کی ہالی وُڈ اور پبلک کو تلاش ہوتی ہے۔ ان کے بقول اخبارات اور رسائل کی ٹائٹل سٹوریز، سازشیں، سی آئی اے اور اعلیٰ سطح کے سیاسی اور سرکاری معاملات، ہالی وُڈ اور فلم بین یہی سب کچھ مانگتے ہیں۔

(ij / aa (Reuters