1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیغمبر اسلام پر ایرانی فلم متنازعہ

افسر اعوان25 مارچ 2015

ایرانی فلم کمپنی کی طرف سے کئی ملین ڈالرز کی لاگت سے خانہ کعبہ کی نقل تیار کی گئی ہے۔ یہ نقل دراصل ایک فلم کی تیاری کا حصہ تھی جس میں تمام تر مذہبی ممانعت اور ناپسندیدگی کے باوجود پیغمبر اسلام کے کردار نگاری بھی شامل ہے۔

https://p.dw.com/p/1ExVv
تصویر: Reuters/Muhammad Hamed

’محمد، میسنجر آف گاڈ‘ نامی یہ فلم Cecil B. DeMille film کمپنی کی طرف سے تیار کی گئی ہے اور شوٹنگ کے لیے کعبہ کی نقل ایران کے ایک گاؤں اللہ یار میں تیار کی گئی ہے۔ اس فلم میں پیغمبر اسلام کے بچپن کے واقعات کی فلمبندی کے دوران اس کردار کی محض پشت دکھائی گئی ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ریلیز سے قبل ہی اس فلم پر ایران میں اس پر شدید تنقید کا آغاز ہو گیا ہے۔

فلم ڈائریکٹر ماجد ماجدی کے مطابق، ’’ہم اپنے پیغمبر کا تعارف کیسے کرائیں؟ بہت سے لوگ ان کی احادیث کو سنیما اور تصاویر کے ذریعے پھیلاتے ہیں۔‘‘

امریکی سنیما کی تاریخ میں ان تمام فلموں کو بہت زیادہ پذیرائی ملتی رہی ہے جن میں مسیحیوں کی مقدس کتاب بائبل سے لی گئی کہانیوں کو موضوع بنایا گیا۔ اس طرح کی فلمیں بننے کا آغاز 1920ء میں ہوا اور اس کی تازہ ترین مثالیں فلم نوح اور ’’ایگزوڈس: گاڈز اینڈ کنگز‘‘ ہیں جن میں بائبل کی کہانیوں پر فلمیں بنائی گئی ہیں۔

تاہم اسلام میں پیغمبر اسلام کے کردار کو دکھانا ایک شجر ممنوعہ قرار دیا جاتا ہے۔ اسلام میں پیغمبر محمد کی شخصیت کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں تاہم زیادہ تر مسلمان مذہبی رہنما اس بات پر متفق ہیں کہ پیغمبر اسلام کی شخصیت کو کردار کی شکل میں پیش کرنے کی ممانعت ہے۔ پیرس میں رواں برس جنوری میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی وجہ بھی یہی تھی کہ شارلی ایبدو نامی اخبار نے پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کیے تھے جن میں ان کا تمسخر اڑایا گیا تھا۔ مسلح افراد کی طرف سے اس ہفتہ روزہ اخبار کے دفتر میں فائرنگ کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ہالی وُڈ کی فلم نوح کو بہت زیادہ پزیرائی ملی
ہالی وُڈ کی فلم نوح کو بہت زیادہ پزیرائی ملیتصویر: Niko Tavernise/MMXIII Paramount Pictures Corporation and Regency Entertainment

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسلام کے سنی مکتبہ فکر میں پیغمبر اسلام، ان کے صحابہ اور رشتہ داروں کی شبیہیں تیار کرنا ممنوع ہے۔ تاہم شیعہ مکتبہ فکر میں ایسا نہیں ہے۔ ایران جو شیعہ اسلام کا سب سے مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا ہے وہاں پیغمبر اسلام کے قریبی ساتھی اور داماد حضرت علی کی شبہیوں پر مبینی پوسٹرز، بینرز، جیولری اور یہاں تک کہ کی چینز بھی دستیاب ہیں۔

190 منٹ دورانیے کی اس فلم میں پیغمبر اسلام کے بچپن کے واقعات کی عکس بندی کی گئی ہے تاہم کہیں بھی ان کا چہرہ نہیں دکھایا گیا بلکہ ان کی کہانی کو دیگر کرداروں کے ذریعے بیان کیا گیا ہے جن میں ان کے داد عبدالمطلب کا کردار بھی شامل ہے جو معروف ایرانی ایکٹر رضا شجاع نوری نے ادا کیا ہے۔

ماجدی نے اپنی اس فلم کے لیے اکیڈمی ایوارڈ یافتہ وژیول ایکفٹس سپروائزر اور فلمساز اسکاٹ ای اینڈرسن Scott E. Anderson، تین مرتبہ آسکر حاصل کرنے والے اطالوی ڈائریکٹر وٹوریو سٹورارو اور میوزک پروڈیوسر اے آر رحمان کی خدمات حاصل کی ہیں۔

اس فلم پر بڑے پیمانے پر تنقید کی جا رہی ہے خاص طور پر سنی عرب ممالک کی جانب سے۔ رواں برس فروری میں مصر کی جامع الازھر یونیورسٹی نے بھی ایرانی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس فلم پر پابندی لگائے۔ تاہم سنی عرب ریاست قطر نے اعلان کیا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام کے حالات زندگی پر ایک ارب ڈالر کی لاگت سے ایک فلم تیار کرے گی۔

اس فلم کے پروڈیوسرز نے اسے عربی، فارسی اور انگریزی میں ریلیز کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بڑے پیمانے پر یہ ریلیز ممکنہ طور پر رواں برس موسم گرما میں ممکن ہو سکے گی۔