1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پیسے لے کر تارکین وطن جرمنی چھوڑ رہے ہیں؟

عاطف توقیر انفومائگرینٹ
12 دسمبر 2017

جرمن حکومت نے سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کو رضاکارانہ طور پر اپنے وطن واپسی پر آمادہ ہونے پر مالی اعانت کی پیش کش کی ہے، مگر اس بارے میں سیاسی پناہ کے درخواست گزار کیا سوچتے ہیں؟

https://p.dw.com/p/2pBoY
Bundesamt für Migration und Flüchtlinge in Nürnberg
تصویر: picture-alliance/Geisler/C. Hardt

گو کہ جرمن حکومت کئی برسوں سے سیاسی پناہ کے ایسے درخواست گزار  کو جو رضاکارانہ طور پر اپنے آبائی وطن لوٹنے پر آمادہ ہو جائیں، مالی مدد فراہم کر رہی ہے، تاہم جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے رواں ماہ اس سلسلے میں مزید مراعات کا اعلان کیا تھا۔ ڈے میزیئر کے مطابق اسے مہاجرین جو معاشی وجوہات کی بنا پر جرمنی پہنچے، انہیں مالی مدد فراہم کی جائے گی، تاکہ وہ اپنے آبائی ملک ہی میں جا بسیں۔ ’تمہارا ملک، تمہارا مستقبل۔ اب‘‘ نامی یہ پیش کش تین ماہ کے لیے ہے اور فروری کے اختتام تک جاری رہے گی۔

’مہاجرین پر پیسہ لگائیں یا اپنے بچوں پر‘

’مہاجرین ایک ہزار یورو لیں اور اپنے وطن واپس جائیں‘

جرمن حکومت مہاجرین کو کاروبار کے لیے قر‌ضے فراہم کرے گی

اس پروگرام کے تحت اگر کوئی تارکین وطن رضاکارانہ طور پر وطن واپسی پر آمادہ ہو جائے، تو اسے بائیس سو یورو تک کی رقم دی جائے گی۔ اس سے قبل یہ رقم 12 سو یورو تھی۔ یعنی اس پروگرام کے تحت اگر ایک خاندان کے تین افراد وطن رضاکارانہ طور پر وطن واپسی پر آمادہ ہوں، تو انہیں قریب چھ ہزار یورو تک کی رقم ملے گی۔

تھوماس ڈے میزئیر کے مطابق، ’’اگر آپ نے فروری کے آخر تک اپنے ملک واپسی کا فیصلہ کیا، تو آپ اپنے ملک میں پہلے ایک برس تک رہائش کا بندوبست کرنے میں مدد لے سکیں گے۔‘‘

شامی واپس نہیں جائیں گے

 

شامی مہاجر فادیل علی جسے کچھ روز قبل جرمنی میں قیام کے لیے ’عارضی پناہ‘ کی اجازت ملی ہے۔ اس کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو گئی تھی، تاہم دو برس کی کوششوں کے بعد اسے یہ اجازت نامہ ملا۔ علی کے بہ قول یہ پیش کش کم از کم شامی باشندوں کو وطن واپسی کے لیے آمادہ نہیں کر پائے گی، جنہوں نے جنگ زدہ علاقے چھوڑے اور ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے جرمنی پہنچے۔

برلن میں پاکستانی اور افغان مہاجرین کے احتجاجی مظاہرے

علی جرمن شہر ہاگن میں اپنی بیوی اور چار بچوں کے ساتھ رہتا ہے۔ علی کے مطابق یہ پیش کش فقط ان تارکین وطن کو قبول ہو گی، جنہیں جرمنی میں قیام کی اجازت ملنے کی کوئی امید نہیں۔ ’’سیاسی پناہ کے ایسے  مشرقی یورپی ممالک یا شمالی افریقہ ممالک سے تعلق رکھنے والے ایسے بہت سے باشندے ہیں، جنہیں معلوم ہے کہ ان کی درخواستیں رد ہو جائیں گی اور انہیں جرمنی سے نکال دیا جائے گا۔‘‘

تارکین وطن سے متعلق معلومات کے حامل انٹرنیٹ فورم انفومائگرینٹ سے بات کرتے ہوئے ایک اور تارکِ وطن آدم ابو محمد نے کہا کہ گو کہ ان کی درخواست مسترد ہو چکی ہے، تاہم وہ اپنے ملک لبنان واپسی کا سوچ بھی نہیں سکتے، ’’میں فرقہ وارنہ لڑائی سے فرار ہو کر جرمنی آیا ہوں، تاکہ اپنے اور اپنے خاندان کی زندگی اور مستقبل کو محفوظ بناؤں۔ چاہے جرمن حکومت کتنے بھی پیسے کیوں نہ دے دے، میں یہ پیش کش قبول نہیں کروں گا۔‘‘