1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پچھلے ہفتے بائیس ہزار روہنگیا بنگلہ دیش پہنچے، اقوام متحدہ

عاطف بلوچ، روئٹرز
10 جنوری 2017

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے قریب بائیس ہزار روہنگیا مسلمان میانمار میں جاری پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے فرار ہو کر بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

https://p.dw.com/p/2Va8J
Bnagladesch Rohingya-Flüchtlinge Flüchtlingslager Kutupalong
تصویر: DW/B. Hartig

 پیر کے روز اقوام متحدہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ میانمار کی شورش زدہ ریاست راکھین سے فرار ہو کر بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے ہیومینیٹیرین امور کی جانب سے جاری کردہ ہفتہ وار رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس اکتوبر سے اب تک راکھین سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد 65 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پانچ جنوری تک میانمار سے بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے افراد کی تعداد 65 ہزار ہے اور اس میں روز بہ روز اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش پہنچنے والے یہ روہنگیا افراد مختلف عارضی مہاجر کیمپوں، خیمہ بستیوں اور مقامی افراد کے گھروں پر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

Bangladesch Rohingya Flüchtlingslager Leda
حالیہ کچھ عرصے میں راکھین ریاست سے ہزاروں افراد ہجرت پر مجبور ہوئےتصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Sohan

یہ رپورٹ ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے، جب اقوام متحدہ کے مندوب برائے انسانی حقوق ینگی لی بارہ روز تحقیقاتی دورے پر میانمار پہنچے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا الزام ہے کہ میانمار کی فوج روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام، لوٹ مار اور جنسی زیادتیوں میں ملوث ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں میانمار کی فوج نے راکھین ریاست میں اپنے نو فوجیوں کے قتل کے بعد کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا۔

راکھین میانمار کی غریب ترین ریاستوں میں سے ایک ہے، جہاں سن 2012ء میں بھی مسلمانوں اور بدھ مذہب کے پیروکاروں کے درمیان پھوٹ پڑنے والے فسادات کی وجہ سے سینکڑوں افراد مارے گئے تھے، جب کہ قریب ایک لاکھ بے گھر ہوئے تھے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق سرکاری فورسز تب بھی بدھ مذہب کے پیروکاروں کی جانب سے حملوں سے مسلمانوں کو تحفظ دینے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی تھیں اور مسلمانوں کے خلاف تشدد کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

میانمار کی نوبل امن انعام یافتہ رہنما آن سانگ سوچی کو اسی تناظر میں شدید بین الاقوامی تنقید کا سامنا بھی ہے۔ بین الاقوامی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ اب جب کہ میانمار پر آن سانگ سوچی کی جماعت کی حکومت ہے، سوچی اس انسانی بحران کو حل کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔