پوپ فرانسس کا دورہ ترکی، مسلم رہنماؤں کے ساتھ قریبی تعلقات کی ایک کوشش
28 نومبر 2014خبر رساں ادارے روئٹرز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ پوپ فرانسس کے اس دورے کا ایک مقصد مسلمان رہنماؤں کے ساتھ باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانا بھی ہے۔ ویٹی کن کے مطابق پاپائے روم ترک رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں بالخصوص مشرق وسطیٰ میں مسیحیوں اور دیگر اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مذمت بھی کریں گے۔
پوپ فرانس ایک ایسے وقت میں ترکی جا رہے ہیں، جب اسلامک اسٹیٹ کے شدت پسندوں نے ترک ہمسایہ ممالک شام اور عراق کے متعدد علاقوں پر اپنا قبضہ مضبوط بنا لیا ہے۔ اس دوران یہ انتہا پسند جنگجو شیعہ کمیونٹی کے علاوہ مسیحی برداری اور دیگر ایسی اقلیتوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں، جو ان کے نظریات سے میل نہیں کھاتے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ پوپ فرانسس جب ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور مسلم اکثریتی اس سیکولر ملک کے اعلیٰ ترین مذہبی رہنما محمت گورمیز سے ملیں گے تو ان کا بنیادی ایجنڈا مذہبی عدم برداشت اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ ہو گا۔ یہ امر اہم ہے کہ ترکی دو ملین شامی مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے، جن میں سے ہزاروں کی تعداد میں مسیحی بھی ہیں۔ یاد رہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں وہاں کی نصف آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔
شام میں خانہ جنگی کے آغاز سے قبل بائیس ملین کی آبادی میں مسیحیوں کا تناسب دس فیصد تھا۔ اسی طرح عراق میں 2003ء کی جنگ کے بعد سے اب تک وہاں کی ستر فیصد مسیحی آبادی سکیورٹی خدشات کی وجہ سے وہاں سے ہجرت کر چکی ہے۔ ان دونوں ہمسایہ ممالک میں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو تمام اقلیتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
ایک اعشاریہ دو بلین کیتھولک مسیحیوں کے رہنما پوپ فرانسس استبول میں اپنے قیام کے دوران برثلماوس الاول سے بھی ملیں گے۔ برثلماوس الاول دنیا بھر میں بسنے والے تین سو ملین آرتھوڈکس مسیحیوں کے روحانی رہنما ہیں۔ ان دونوں روحانی رہنماؤں کی اس ملاقات کا مقصد قدیمی مغربی اور مشرقی مسیحیوں کے مختلف دھڑوں کے مابین مزید قریبی تعلقات استوار کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
پوپ فرانس ایسے تیسرے ملک کا دورہ کر رہے ہیں، جہاں مسلمان اکثریتی آبادی میں ہیں۔ قبل ازیں وہ اردن اور البانیہ کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ پوپ فرانسس نے مشرق وسطٰی کی موجودہ صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ تمام تنازعات کا حل پر امن مذاکرات سے ڈھونڈنا چاہیے۔ انہوں نے البتہ یہ بھی کہا کہ اسلامک اسٹیٹ سے مذاکرات ممکن نہیں معلوم ہوتے لیکن پھر بھی یہ راستہ بند نہیں کیا جانا چاہیے۔