1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پوٹن پھر صدارتی انتخابات میں حصہ لیں گے

7 دسمبر 2017

روسی صدر ولادی میر پوٹن نے اگلے برس ہونے والی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق پوٹن کو انتخابات میں آسانی سے کامیابی مل جائے گی۔

https://p.dw.com/p/2owRL
Russland Nischni Nowgorod Wladimir Putin
تصویر: picture-alliance/TASS/M. Metzel

 ایک روسی کار ساز ادارے ’جی اے زیڈ‘ کے ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے  ولادی میر پوٹن نے کہا کہ صرف انہی کی قیادت میں روس تمام مسائل کو حل کرتے ہوئے آگے بڑھ سکتا ہے۔‘‘ یہ ادارہ روسی صنعت کی ایک علامت سمجھی جاتی ہے۔ پوٹن کے بقول، ’’اس اعلان کے لیے اس سے بہتر جگہ نہیں ہو سکتی تھی۔ میں آپ کی حمایت و تائید کا شکر گزار ہوں، میں اگلے انتخابات میں حصہ لوں گا۔‘‘

مشرقی یوکرائن میں باغیوں کے الیکشن، تناؤ میں اضافہ

روس میں پارلیمانی انتخابات، پوٹن نواز پارٹیوں کی کامیابی یقینی

بیلا روس میں الیکشن: اپوزیشن کا ایک بھی امیدوار نہ جیتا

روسی صدارتی الیکشن: پوٹن کی فتح

 پوٹن اگر مارچ 2018ء کے صدارتی انتخابات جیت جاتے ہیں تو وہ جوزف اسٹالن کے بعد روس پر سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والے سربراہ مملکت بن جائیں گے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق پینسٹھ سالہ پوٹن کی مقبولیت کا شرح اسی فیصد کے قریب ہے اور اسی لیے وہ باآسانی انتخابات جیت سکتے ہیں۔ تاہم کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ پوٹن شاید انتخابی دوڑ میں شامل ہی نہ ہوں۔

پوٹن کے مقابلے میں شاید زیادہ تر وہی امیدوار میدان میں ہوں گے، جو ماضی میں بھی ان کے خلاف انتخابات لڑ چکے ہیں۔ تاہم ان میں ایک نیا اضافہ چھتیس سالہ کسینیا سوبچک کا بھی ہو سکتا ہے۔ سوبچک ٹیلی وژن پر میزبانی کرتی ہیں۔ وہ ایک ایسے ادارے کی سربراہ بھی رہ چکی ہیں، جہاں پر پوٹن کی بیٹی بھی کام کرتی رہی ہیں۔

Ksenia Sobchak russische TV Moderatorin
چھتیس سالہ کسینیا سوبچک بھی اگلے برس کے صدارتی الیکشن کی امیدوار ہیںتصویر: picture-alliance/Photoagency Interpress

گزشتہ کئی مہینوں سے پوٹن سے انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے سولاات پوچھے جا رہے تھے۔ پوٹن 2000ء سے اقتدار میں ہیں۔ وہ 2000ء سے 2008ء تک سربراہ مملکت تھے۔ پھر ملکی آئین کی پاسداری کرتے ہوئے وہ تیسری مرتبہ صدر نہیں بنے تھے اور انہیں وزیراعظم بننا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دور میں بھی صدر دیمتری میدویدیف کی جگہ بیشتر فیصلے پوٹن ہی لیا کرتے تھے۔ میدویدیف کے دور میں ہی صدارت کی مدت چھ سال کر دی گئی تھی۔ 2012ء میں میدویدیف کے صدارت سے الگ ہونے کے بعد پوٹن ایک مرتبہ اس منصب پر براجمان ہو گئے