پولینڈ میں ’آمرانہ رجحانات‘ پر یورپی یونین میں تشویش
24 دسمبر 2015یورپی کمیشن نے بدھ کے روز پولینڈ کے وزیر خارجہ اور وزیر انصاف کے نام ایک خط تحریر کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پولینڈ میں کی جانے والی اصلاحات کو اُس وقت تک ’حتمی طور پر منظور یا لاگو‘ نہ کیا جائے جب تک کہ اُن کے اطلاق کے نتیجے میں مرتب ہونے والے اثرات کا ’مکمل اور موزوں طور پر جائزہ نہیں لے لیا جاتا‘۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اس خط کے مندرجات دیکھنے کے بعد اپنے ایک جائزے میں بتایا ہے کہ اس خط میں کن کن اہم نکات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس خط میں یورپی یونین کے انتظامی ادارے نے لکھا ہے:’’یورپی کمیشن ایسے حالات کو پیدا ہونے سے روکنے کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے، جن کے نتیجے میں یونین کے کسی بھی رکن ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی پر سوالیہ نشان لگتا ہو۔‘‘
واضح رہے کہ پولینڈ کی پارلیمان نے رواں ہفتے منگل کے روز ملک کی آئینی عدالت کے حوالے سے متنازعہ اصلاحات کی منظوری دے دی تھی، جنہیں ملک کے اندر اور باہر بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تب 235 ارکان نے ان اصلاحات کے حق میں ووٹ دیے تھے جبکہ 181 نے ان کی مخالفت کی تھی۔
پارلیمان میں ان اصلاحات پر رائے شماری سے پہلے گزشتہ وِیک اَینڈ پر پولینڈ کے دارالحکومت وارسا اور دیگر شہروں میں ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر ان اصلاحات کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی تھی اور ملک کی قدامت پسند حکومت پر الزام لگایا تھا کہ وہ جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے۔
ان اصلاحات کو ہدفِ تنقید بنانے والوں میں ملک کے ایک سابق صدر لیخ والینسا بھی شامل ہیں، جن کی قیادت میں پولینڈ میں جنم لینے والی تحریک سالیڈیریٹی اس ملک میں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کا باعث بنی تھی۔ والینسا نے، جو حال ہی میں ملک کے اندر ’خانہ جنگی‘ کے خطرے سے خبردار کر چکے ہیں، ان اصلاحات کو متعارف کروانے والی حکمران جماعت لاء اینڈ جسٹس پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اُنہوں نے ان اصلاحات کی مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں میں اپنی آواز شامل کرتے ہوئے ایسا ریفرنڈم منعقد کروانے کا مطالبہ کیا ہے، جس میں حکومت کو قبل از وقت انتخابات کے انعقاد پر مجبور کیا جا سکے۔
ریڈیو زَیٹ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے والینسا نے کہا:’’یہ حکومت پولینڈ کے مفادات کے خلاف کام کر رہی ہے، اس کے اقدامات آزادی اور جمہوریت کے خلاف جاتے ہیں اور یہ پوری دنیا میں ہمیں مذاق کا نشانہ بنوا رہی ہے۔ مجھے تو بیرونِ ملک جاتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے۔‘‘
پولینڈ میں اکتوبر میں منعقد ہونے والے انتخابات میں قدامت پسند سابق وزیر اعظم ژاروسلاو کاچِنسکی کی جماعت کو کامل اکثریت حاصل ہوئی تھی اور تب سے یہ ملک ایک سیاسی بحران سے دوچار ہے۔
نئی اصلاحات کے تحت آئینی عدالت کو کوئی فیصلہ دینے کے لیے سادہ اکثریت کی بجائے دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔ جہاں آج کل زیادہ تر نزاعی معاملات میں ملکی آئینی عدالت کے نو ججوں کی حاضری کافی ہوتی ہے، وہاں نئی اصلاحات کے تحت تیرہ ججوں کی حاضری لازمی ہوا کرے گی۔ پولینڈ کی سپریم کورٹ نے بھی نئی اصلاحات کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ اصلاحات ملکی آئینی عدالت کے کام میں مداخلت کے مترادف ہیں اور ان کے نتیجے میں آئینی عدالت کے لیے مناسب طریقے سے کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔