1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب میں گورنر راج کے خاتمے کا ’اعلان‘: کہیں خوشی کہیں غم

تنویر شہزاد، لاہور28 مارچ 2009

گورنر راج کے خاتمے کے ’اعلان‘ پر صوبہ پنجاب میں ملےجلے رد عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ گورنر راج کے خاتمے کے لیے ابھی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/HLtO
مسلم لیگ (ن) حکومت بنانے کے بجائے گورنر راج کے نفاذ سے پہلے والی صوبائی حکومت کی عدالت کے ذریعے بحالی میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہےتصویر: Tanvir Shahzad

یہ ’اعلان‘ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب سپریم کورٹ پنجاب کے سابق وزیرِ اعلیٰ میاں شہاز شریف کی نا اہلی کا کیس سننے والی ہے ۔ صوبے میں اکثریت رکھنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو ایک بار پھر وزیر اعلیٰ بننے میں قانونی پابندیوں کا سامنا ہے۔

Pakistan Regierungsbündnis bricht auseinander, Nawaz Sharif
سابق وزیرِ اعظم پاکستان نواز شریف مضبوط سے مضبوط تر ہوتے دکھائی دے رہے ہیںتصویر: AP

اس صورتحال میں مسلم لیگ (ق) نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس جلد بلانے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) حکومت بنانے کے بجائے گورنر راج کے نفاذ سے پہلے والی صوبائی حکومت کی عدالت کے ذریعے بحالی میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا ء اﷲ خان نے ڈوئچے ویلےکو بتایا کہ انہیں پوری امید ہے کہ سپریم کورٹ شہباز شریف کی نا اہلیت کے کیس کا میرٹ پر فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو چوبیس فروری دو ہزار نو کی حالت پر بحال کر دے گی۔

Pakistan Asif Ali Zardari neuer Präsident
پنجاب میں پیپلز پارٹی حزبِ اختلاف میں بیٹھے گی تاہم مسلم لیگ نواز کو غیر مشروط تعاون فراہم کرے گیتصویر: AP

ادھر گورنر راج کے خاتمے کے فیصلے نے پیپلز پارٹی کے ان اراکینِ اسمبلی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے جو چند دن پہلے تک پنجاب میں اپنی حکومت بنانے کا منصوبہ بنائے بیٹھے تھے ۔ پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ ریاض نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ مسلم لیگ (ق) کے رہنمائوں نے انہیں پنجاب میں حکومت سازی کے لئے اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا تاہم ان کے بقول اس سلسلے میں جب بات آگے بڑھی تو ق لیگ والوں نے وزارت اعلیٰ اور سینٹ کے چیئرمین کے عہدے کے مطالبے کرنا شروع کر دیے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی پنجاب میں حکومت نہ بنا سکی اور آخر کار پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ن) کی حمایت کرنا پڑی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کی ہدایت کے مطابق پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھےگی اور مسلم لیگ (ن) کو غیر مشروط تعاون فراہم کیا جائے گا ۔

Pakistan Unterstützer der Oppositinspartei Jamat-i-Islami skandieren Anti-Musharraf Sprechchöre
دائیں بازو کی جماعت، جماعتِ اسلامی پاکستان نے نسبتاً اعتدال پسند پروفیسر منوّر حسن کو جماعت کا ’امیر‘ منتخب کرلیا ہےتصویر: AP

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ چوں کہ صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں فارورڈ بلاک کی حوصلہ شکنی کی بات کی ہے اس لیئے پیپلز پارٹی کی حمایت کرنے والے فارورڈ بلاک کے ارکان اسمبلی کو واپس اپنی اپنی جماعتوں میں جانا ہو گا۔

ادھر جماعت اسلامی پاکستان نے اگلے پانچ سالوں کے لیئے سید منور حسن کو اپنا نیا امیر منتخب کیا ہے۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے سید منور حسن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب میں ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے اراکین اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کرانے کی پوری کوشش کی ہے۔ ان کوششوں میں ناکامی کے بعد ان کے لیے گورنر راج ختم کرنے اور مسلم لیگ (ن) سے تعاون کرنے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں بچا تھا۔ ان کے مطابق امریکہ کے حکم کے تحت پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں مجبوراً نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی طرف دست تعاون بڑھا رہی ہیں۔ ان کے خیال میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی نئی محبت زیادہ دیر برقرار رہتی نظر نہیں آ رہی۔

سیاسی مبصرین کے مطابق پیپلز پارٹی کی طرف سے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن میں بیٹھنے کے فیصلے سے مسلم لیگ (ن) کو صوبے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔