1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کو جیب خرچ نہیں ملنا چاہیے‘

شمشیر حیدر کے این اے
2 نومبر 2017

جرمنی کے صوبائی وزرائے داخلہ کے ایک اجلاس میں مہاجرین کو فراہم کی جانے والی سہولیات پر بڑھتے اخراجات کے بارے میں گفتگو کی گئی اور پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کے خلاف مزید سخت اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/2mtcK
Deutschland Flüchtlinge Protest gegen Abschiebung
تصویر: Getty Images/S. Gallup

جرمن نیوز ایجنسی کے این اے کی رپورٹوں کے مطابق یکم نومبر کے روز منعقد ہونے والے اس اجلاس میں وفاقی جرمن ریاستوں کے وزرائے داخلہ کا کہنا تھا کہ مہاجرین اور پناہ گزینوں پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی لانے کے لیے ایسے تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات کی ضرورت ہے، جن کی جرمنی میں جمع کرائی گئی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں اور وہ اپنی وطن واپسی کے بارے میں حکام سے تعاون نہیں کر رہے۔

جرمنی: مہاجرت کے نئے ضوابط

جرمنی میں اس سال اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ ملی؟

جرمن کے سولہ وفاقی صوبوں کے وزرائے داخلہ کی اس کانفرنس کے سربراہ اور وفاقی ریاست سیکسنی کے وزیر داخلہ مارکوس اُلبش کا جرمنی کے کثیرالاشاعتی اخبار ’بلڈ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میری رائے میں پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کو ماہانہ مالی معاونت کی فراہمی جاری رکھنے کی حوصلہ شکنی کی جانا چاہیے۔‘‘

سیکسنی کے وزیر داخلہ نے مہاجرین کو فراہم کی جانے والی سہولیات سے متعلق جرمن قوانین میں ترمیم کی تجویز دیتے ہوئے کہا، ’’جو تارکین وطن جرمنی سے نہیں جانا چاہتے، انہیں خود یہ ثابت کرنا چاہیے کہ وہ کن وجوہات کی بنا پر وطن واپس نہیں جا سکتے، جس کے بعد ہی سرکاری ادارے انہیں ماہانہ مالی معاونت کی فراہمی جاری رکھنے کے بارے میں فیصلہ کریں۔‘‘

وفاقی جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے ایف ڈی پی سے تعلق رکھنے والے وزیر داخلہ یوآخم سٹامپ کا کہنا تھا، ’’ہم وفاقی سطح پر مخلوط حکومت کے قیام کے لیے جاری مذاکرات میں ایسے تارکین وطن کے خلاف سخت ضوابط طے کرنے پر بات کر رہے ہیں۔ ان مذاکرات میں یہ تجاویز بھی شامل ہیں کہ اپنی ملک بدری رکوانے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کو دی جانے والی مالی معاونت کم کر دی جانا چاہیے اور وطن واپسی تک انہیں خصوصی حراستی مراکز میں رکھا جانا چاہیے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ سماجی طور پر بہتر انداز میں اپنے ارد گرد کے معاشرے میں ضم ہو چکے تارکین وطن کے جرمنی میں قیام کو ممکن بنانے کے لیے اقدامات کرنا بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔‘‘

یورپ جانے کا شوق، ’پاکستانی مہاجرین بھی پھنس گئے‘

تاہم نئے ضوابط اور قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے میکلن برگ بالائی پومیرانیا اور لوئر سیکسنی کے وزرائے داخلہ کا کہنا تھا کہ ایسے قوانین تو پہلے ہی سے موجود ہیں، جن کے تحت اپنی ملک بدری کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے تارکین وطن کا ماہانہ خرچہ بند کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیے جانے کی ضرورت ہے۔

صوبہ باویریا کے وزیر داخلہ یوآخم ہیرمان نے تاہم قوانین مزید سخت کرنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کو نقد رقم فراہم نہیں کی جانا چاہیے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت سے تعلق رکھنے والے باڈن ورٹمبرگ کے وزیر داخلہ تھوماس سٹروبل کا کہنا تھا، ’’پناہ کے مسترد درخواست گزار تارکین وطن کی ملک بدری اس لیے ممکن نہیں ہو پاتی کیوں کہ وہ اس بارے میں حکام سے تعاون نہیں کرتے اور اکثر اوقات تو وہ اپنی شناخت کے بارے میں بھی فریب اور دھوکا دہی سے کام لیتے ہیں، جو ہرگز قابل قبول بات نہیں ہے۔‘‘

’مہاجرین کو متبادل سفری دستاویزات کے ذریعے ملک بدر کیا جائے‘

جرمنی سے مہاجرین کو ملک بدر کر کے یونان بھیجا جائے گا، یونان