1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشتو فلموں میں کلاشنیکوف کا راج

عابد حسین1 دسمبر 2015

پاکستان کی پشتو فلموں میں کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ وہ پاکیزگی اور ادیبانہ مزاج سے دور ہوتی ہیں۔ افغان جنگ نے ان فلموں میں تشدد کی فضا میں مزید شدت پیدا کر دی۔

https://p.dw.com/p/1HFCs
تصویر: A, Majeed/AFP/Getty Images

حال ہی میں ریلیز ہونے والی ایک پشتو فلم کے ٹائٹل کا اردو ترجمہ ’غریب کو کیڑا مت سمجھو‘ کیا جا سکتا ہے۔ پشاور کے سینما حال کا ایئر کنڈیشنگ سسٹم خراب ہونے کی وجہ سے تمام فلم دیکھنے والوں کے کپڑے شدید گرمی اور حبس کے ماحول میں پسینے سے شرابور بھی ہو جاتے ہیں لیکن اُن پر ایک چُپ کی مہر لگی ہوتی ہے کیونکہ وہ انتہائی انہماک سے فلم کا لطف اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ فلم کے دوران نوجوان شائقین ہر گانے پر ڈانس کرنے کے ساتھ فرطِ جذبات سے آوازے بھی کسنے سے گریز نہیں کرتے۔ اِس فلم کا مرکزی خیال انتقام ہے اور ساری فلم میں تشدد کا سلسلہ چلتا ہے اور ہیرو اور ولن کے ہاتھوں میں کلاشنیکوف گرتے نہیں دکھائی دیتی۔

گزشتہ برس پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبرپختونخوا کے کم از کم دو سینما گھروں کو لرزہ خیز دہشت گردانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اِن حملوں کے پسِ پردہ بنیاد پرستوں کا ہاتھ تھا۔ اِن حملوں کے باعث رواں برس صوبائی دارالحکومت پشاور کے سینما گھر عید کے ایام پر نئی فلموں کی ریلیز سے دور ضرور رہے۔ تاہم رواں برس کے دوران سات نئی فلمیں وقفے وقفے سے ریلیز ہوتی رہی۔ خیبرپختونخوا کی نصف آبادی کو غیر تعلیم یافتہ خیال کیا جاتا ہے لیکن اِس صوبے کے قدرے پڑھے لکھے اور مزدور طبقے کےشوقین حضرات فلم دیکھنے کے لیے سینما گھروں جانے سے گبھراتے نہیں اور ہر نئی فلم کی ریلیز کا پرزور استقبال کرتے ہیں۔

Pushto film billboard in Peshawar
گزشتہ برس خیبرپختونخوا کے کم از کم دو سینما گھروں کو دہشت گردانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑا تھاتصویر: Pushto Film

پشاور اور قریبی شہروں کے سینما گھروں میں پشتو فلم کا ٹکٹ چار سو روپے یا چار ڈالر کے مساوی ہوتا ہے۔ پاکستان کی اقتصادی صورت حال کے تناظر میں فلم کی ٹکٹ دوگنا ہو چکی ہے لیکن پشتون اپنی زبان کی فلموں میں کلاشنیکوف تھامے ہیرو کو اپنی شان اور آن کے انداز میں لیتے ہیں۔ پاکستانی پشتو فلمیں بلیک اینڈ وائٹ دور سے ہی تشدد اور ایسے ڈانسز کی وجہ سے مشہور چلی آ رہی ہیں، جن میں ڈانسر خاتون اپنے بھاری کولہوں کو مٹکاتی دکھائی دیتی ہے اور یہ منظر ساری اسکرین پر چھا جاتا ہے۔ یہی کلچر آج بھی پشتو فلموں میں چھایا ہوا ہے لیکن تشدد میں مزید شدت پیدا ہو گئی۔ پشتو فلموں کے ناقدین کا خیال ہے کہ فلم بنانے والے خود کو مغربی فلموں کے زیر اثر محسوس کرتے ہیں اور اِس باعث بتدریج پشتو فلمیں جنسی جذبات کو ابھارنے والی ہوتی چلی گئی ہیں اور افغان جنگ نے ان فلموں میں تشدد اور ہتھیاروں کی نمائش کے عمل کو ایک نئی جہت بخش دی ہے۔ مقامی انتہا پسندوں کا خیال ہے کہ ان فلموں میں پیش کی جانے والی بے حیائی نے پشتون مردوں اور عورتوں کو اخلاق باختہ کر دیا ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے استاد فخر الاسلام کا کہنا ہے کہ اسکرپٹ کو مزید بہتر بنانے کی گنجائش اپنی جگہ لیکن اِن فلموں کے پروڈیوسرز اور ہدایت کار ان پڑھ مزدور طبقے کی تفریح کے لیے منشیات، غنڈہ گردی، تشدد اور ڈانسر لڑکیوں کے رقص کو فلم کی تکمیل میں ترجیح دیتے ہیں۔