پشاور میں بم دھماکہ
5 دسمبر 2008ڈوئچے ویلے کے نامہ نگار کے مطابق یہ دھماکہ پشاور میں واقع قصہ خوانی بازار کے قریب کوچہ رسالدار میں ایک ہوٹل کے باہر ہوا ہے۔یہ دھماکہ اتنا زوردار تھا کہ اس کے آس پاس کی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اورزمین میں پانچ فٹ گہرا گڑھا پڑ گیا۔ پولیس کے مطابق یہ حملہ خود کش نہیں تھا بلکہ حملہ آوروں نے دھماکہ خیز مواد گاڑی میں نصب کیا ہوا تھا۔ جب یہ دھماکہ ہوا اس وقت پشاور کے مرکزی بازار قصہ خوانی میں عید البقر کی وجہ سے گہما گہمی تھی ۔
اس سے قبل آج دوپہر اورکزئی ایجنسی میں ایک بم دھماکے میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور دس کے زخمی ہوئے۔ حکام کے مطابق کلایہ کے علاقے میں بارود سے بھری ایک گاڑی کو ریموٹ کنٹرول سے اڑایا گیا جس کے نتیجے میں گاڑی کے پاس کھڑے چھ افراد موقعے پر ہلاک ہوگئے جبکہ چند زخمیوں کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ مرنے والے تمام افراد اس وقت پہرہ دے رہے تھے۔ دیگر قبائلی علاقوں کے مقابلے اورکزئی ایجنسی پرامن علاقہ سمجھا جاتا تھا تاہم گزشتہ کئی ماہ سے یہاں پر عسکریت پسندوں کی کاروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 10اکتوبر کومقامی عمائدین، عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے جرگہ میں مصروف تھے کہ اس دوران جرگہ پر خود کش حملہ کیا گیا۔ جس میں 80 افراد ہلاک اور140 زخمی ہوئے تھے۔
اورکزئی ایجنسی کے علاوہ صوبہ سرحد کے جنوبی اضلاع بنوں کی پیروخیل چیک پوسٹ پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا۔ اس دوران سیکورٹی فورسز نے جوابی کاروائی کی۔ سیکورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ حملے میں عسکریت پسندوں کے 4 ساتھی ہلاک ہوئے جنکی نعشیں عسکریت پسند اپنے ساتھ لے گئے۔ قبائلی علاقوں کی طرح صوبہ سرحد کے جنوبی اضلاع اورملاکنڈ ڈویژن میں بھی سیکورٹی فورسز کی کاروائیاں جاری ہیں۔ سوات کے علاقہ گھٹ پیوچار میں عسکریت پسندوں کے متعدد ٹھکانوں پر گولہ باری کی گئی۔
دوسری جانب سوات میں طالبان کے شوریٰ نے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان مسلم خان کا کہنا ہے کہ عید الاضحی کے احترام میں طالبان نے ایک ہفتہ کیلئے کاروائیاں موخر کی ہیں لیکن اگر طالبان پرحملہ ہوا تو وہ جوابی کاروائی کا حق رکھتے ہیں اس اعلان کے باوجود سوات میں تشدد کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ خوازہ خیلہ میں نامعلوم افراد نے ایک گرلز سکول کونذرآتش کیا جبکہ مینگورہ میں مقامی صحافی کے گھر پر نامعلوم افرادنے فائرنگ کی جس میں ان کی ہمشیرہ ہلاک ہوئیں ہے۔
شرپسندوں نے سوات کے تجارتی شہرمینگورہ اورتحصیل کبل کے رابطہ پل کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا ہے جس سے علاقے کے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا پڑ رہا ہے۔ علاقہ میں پہلے ہی بجلی اورگیس کی سپلائی معطل ہے۔
سرحد حکومت کے ترجمان اور وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ حکومت ہرحال میں اپنی عمل درای قائم کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے گی۔
انہوں نے کہا کہ سوات آپریشن دراصل ان لوگوں کے خلاف ردعمل ہے جنہوں نے حکومتی رٹ کو چیلنج کررکھا ہے۔ میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ متوازی حکومت قائم کرنا اور حکومتی اداروں کو کام سے روکنے والوں کے ہاتھ روکنے کے لئے حکومت کے پاس کوئی دوسراراستہ نہیں۔ حالانکہ ہم پرامن لوگ ہیں اور امن کے فلسفے پرعمل پیرا ہیں اور تمام مسائل مذاکرات اوربات چیت کے ذریعے حل کرانے کے خواہاں ہے ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں باقاعدہ امن معاہدے بھی ہوئے ہیں۔
ادھر پشاور میں بھی سکولوں میں دھماکوں کاسلسلہ پھر سے شروع ہوگیا ہے۔ حالیہ دھماکے میں پولیس کے زیرانتظام سکول میں دھماکہ کیا گیا تاہم اس دھماکے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔