1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور: اسلحے کی مانگ میں یکدم اضافہ

فرید اللہ ‌خان، پشاور12 فروری 2016

باچا خان یونیورس‍ٹی میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد سے خیبر پختون‍خوا بھر میں نجی سکولوں مالکان، اساتذہ اور طالب علموں کی ایک بڑی تعداد اسلحہ خریدنے کے لئے دکانوں اور اسلحہ ساز کمپنیوں کا رخ کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HuNd
Pakistan immer mehr Lehrer und Schüler tragen Waffen
تصویر: DW/F. Khan

پشاور میں اسلحے کا کاروبار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اپنی حفاظت کے لئے زیادہ تر لوگ ان سے پستول خرید رہے ہیں جبکہ پشاور کی ان دکانوں پر ملکی اور غیر ملکی ساخت کے پستولوں سمیت دیگر اسلحہ بھی دستیاب ہے۔ موجودہ حالات کی وجہ سے پشاور کی مارکیٹ میں پاکستانی اسلحے سمیت ترک، چینی، روسی اور امریکی ساختہ اسلحے کی مانگ بڑھ چکی ہے جبکہ ان کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

مقامی شارٹ گن کی قیمت پانچ سے بارہ ہزار روپے ہے جبکہ ترکی کی بنی ہوئی شارٹ گن کی قیمت تقریباﹰ چالیس ہزار روپے ہے۔ مقامی نائن ایم ایم پستول کی قیمت چودہ ہزار روپے سے پچیس ہزار روپے تک ہے جبکہ روسی ساخت کا نائن ایم ایم پستول تقریباﹰ پینتیس ہزار روپے میں مل رہا ہے۔

Pakistan immer mehr Lehrer und Schüler tragen Waffen
تصویر: DW/F. Khan

پشاور کے اسلحہ ‌ڈیلر شہزاد احمد خان سے کا کہنا تھا، ’’آرمی پبلک سکول کے واقعے کے بعد اسلحے کے خریداروں میں اضافہ ہوا تھا لیکن جب باچا خان یونیورسٹی کا واقعہ رونما ہوا اور پھر صوبائی حکومت کی جانب سے موثر اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے تو اسلحہ خریداروں میں اضافہ ہوا ہے۔ اسلحہ خریدنے والوں میں زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد سمیت اسٹوڈنٹس کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ اس اسلحے سے دہشت گردوں کا مقابلہ ممکن نہیں لیکن حملے کی صورت میں کسی حد تک ان کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ ان حالات کی وجہ سے اسلحہ کی خریداری میں ساٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس ساٹھ فی‍صد خریداروں میں اسی فیصد اساتذہ، طلبا اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شامل ہیں۔‘‘

Pakistan immer mehr Lehrer und Schüler tragen Waffen
تصویر: DW/F. Khan

نوجوان طالب علم جہاں اسلحے کی خریداری میں دلچسپی لے رہے ہیں وہاں وہ اسلحہ چلانے کی تربیت پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ اسلحہ خریدنے کے لئے آنے والے ایک نوجوان کامران خان کا کہنا تھا، ’’تعلیمی اداروں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن مسلسل دہشت گردی کے واقعات اور اس پر حکومتی ردعمل نے لوگو‌ں کو مایوس کرکے رکھ دیا۔ جب حکومت نے نجی اور سرکاری اداروں کو خود حفاظتی اقدامات اٹھانے کا کہا توخدشات میں مزید اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے اب ہر کوئی اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ رکھنا چاہتا ہے۔ ہم بھی اسی نیت سے آئے ہیں۔‘‘

تجزیہ کاروں کے مطابق ایک وقت تھا کہ والدین بچوں کو اسلحہ سے دور رکھتے تھے لیکن آج والدین بھی ان کی پشت پناہی کرنے پر مجبور ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں اسلحے کی بھر مار کے انتہائی منفی اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔