1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پروین رحمان کا قاتل تین برس بعد گرفتار

10 مئی 2016

کراچی پولیس نے معروف سماجی کارکن پروین رحمان کے قتل میں ملوث ملزم کو تین سال بعد گرفتار کرلیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Il7O
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum

ملزم نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے کہ قتل کی منصوبہ بندی اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے دفتر کی زمین پر قبضہ کے لیے کی گئی تھی اور منصوبہ کوعملی جامہ کالعدم تحریک طالبان کے دہشتگردوں نے پہنایا۔ ملزم کی گرفتاری سے ثابت ہوگیا ہے کہ شہر میں سرگرم قبضہ اور پانی مافیا کے ساتھ کالعدم تنظیموں کی کاروباری شراکت ہے۔

ایس ایس پی ضلع غربی کیپٹن ریٹائرڈ غلام اظفر مہیسر کہتے ہیں کہ پولیس کو تین سال کی محنت کے بعد یہ اہم کامیانی حاصل ہوئی ہے اور منگھو پیر پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے ملزم رحیم سواتی نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔ ملزم نے تفتیش کاروں کو بتایا ہے کہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے دفتر کے اطراف کی تمام تر زمین پر قبضہ کرنے کے بعد اس کی نظریں پراجیکٹ کے دفتر پر تھیں۔ پروین رحمان سے کئی مرتبہ دفتر سے متصل میدان پر فٹبال اسٹیڈیم اور کراٹے سنٹر قائم کرنے کے حوالے سے بات ہوئی مگر وہ راضی نہ ہوئیں لہذا طالبان کی مدد سے انہیں قتل کرا دیا گیا۔

سینیئر تفتیش کار زیڈ ایچ صدیقی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب پروین رحمان کا قتل ہوا تو وہ اورنگی ٹاون ڈویژن میں ہی تعینات تھے۔ پروین رحمان کے قتل کے اگلے ہی روز منگھو پیر میں تحریک طالبان کا کمانڈر قاری بلال مبینہ مقابلے میں مارا گیا۔ بلال کے قبضے سے برآمد ہونے والے پستول کا جب فرانزک تجزیہ کرایا گیا تو انکشاف ہوا کہ پروین رحمان پر فائرنگ اسی پستول سے کی گئی تھی۔

فرانزک تجزیہ کی رپورٹ سے یہ تو واضح ہوگیا کہ قتل کِس نے کیا ہے مگر اس سنگین جرم کا ارتکاب کیوں کیا گیا وجہ معلوم کرنے کے لیے پروین رحمان سے متعلق ہر پہلو کی باریک بینی سے تحقیق کی گئی اور دو اہم ممکنہ وجوہات کا علم ہوا۔

Überflutung in Pakistan Flash-Galerie
تصویر: DW

پروین رحمان زندگی کے آخری ایام میں اورنگی ٹاون اور ملحقہ علاقوں میں پینے کے پانی کی چوری اور غیر قانونی ہائیڈرینٹس کے خلاف کام کر رہی تھیں۔ پروین رحمان نے اس حوالے سے ایک اسٹڈی رپورٹ بھی مرتب کی تھی جبکہ وہ پراجیکٹ سے وابستہ ہونے کے بعد سے ہی اورنگی ٹاون میں سرگرم زمینوں پر قبضہ کرنے والے گروہ کے خلاف سرگرم تھیں اور اپنے آخری انٹرویو میں انہوں نے علاقے کے قبضہ مافیا کو لسانی قتل کو غارت کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ پروین رحمان کے مطابق رحیم سواتی اس قبضہ گروہ کا سرغنہ تھا۔

تفتیش بالآخر اورنگی پائلٹ پراجیکٹ سے متصل میدان اور قریب ہی قائم ہونے والے ہائیڈرنٹ پر آکر رک گئی تھی مگر پھر پولیس نے بدنام زمانہ بھالو گروپ کے کارندے بلال عرف ٹینشن کو گرفتار کیا جس نے دورانِ تفتیش انکشاف کیا کہ رحیم سواتی نے قتل والے روز بھالو گروپ کے لڑکوں کو جائے واردات کے قریب ہی واقع ہوٹل پر جمع ہونے کو کہا تھا۔

رحیم سواتی عوامی نیشنل پارٹی کا علاقائی عہدے دار تھا لہذا یہ بات پریشان کن تھی کہ لبرل سمجھی جانے والے اے این پی کے عہدے دار کا طالبان سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ تعلق خالصتاٰﹰ کاروباری ہے۔ طالبان کاروبار میں شریک ہوکر قبضہ مافیا اور پانی مافیا کی سرپرستی کررہے تھے۔

تفتیش کاروں کے مطابق بظاہر معصوم دکھائی دینے والا رحیم سواتی انتہائی شاطر اور مجرمانہ ذہنیت کا حامل شخص ہے۔ رحیم سواتی نے گرفتاری کے بعد تفتیش کاروں کی ان تمام متوقع وجوہات کی تصدیق کرتے ہوئے اپنے کئی ایسے ساتھیوں کے ناموں کا بھی انکشاف کیا جو اس سے پہلے کبھی سامنے نہیں آئے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ صرف پولیس کی کامیابی نہیں کیونکہ پولیس نے تو طالبان کمانڈر قاری بلال کی ہلاکت کے بعد واقعہ کو دہشت گردی قرار دے کر فائل داخل دفتر کرنے کی تیاری مکمل کرلی تھی لیکن سپریم کورٹ نے مسلسل باز پرس جاری رکھی اور پولیس مجبور ہوئی کہ مزید تفتیش کر کے واردات کے پیچھے کارفرما عوامل کو تلاش کرے اور اصل ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لائے۔

رفعت سعید کراچی