1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی پنجاب کی ترقی کے لیے چینی کمپنیاں سرگرم

تنویر شہزاد، لاہور10 جولائی 2013

پنجاب کے وزیر اعلٰی کے حالیہ دورہ چین کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ پچھلے دو سالوں سے رکے ہوئے نندی پورپاور پراجیکٹ پر دوبارہ کام شروع ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/19555
تصویر: Reuters

آج کل چینی کمپنیوں کی طرف سے پاکستانی صوبہء پنجاب میں توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی ظاہر کی جا رہی ہے۔ حال ہی میں وزیر اعظم نواز شریف کی وفاقی حکومت کے ایک وفد کے ساتھ چین کا دورہ کرنے والے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اس حوالے سے کئی بڑی چینی کمپنیوں کے ساتھ مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے حالیہ دورہ چین کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ پچھلے دو سالوں سے رکے ہوئے نندی پورپاور پراجیکٹ پر دوبارہ کام شروع ہو گیا ہے، چار سو پچاس میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت والے اس منصوبے کے لیے فرانس، چین اور جرمنی سے منگوائی جانے والی کروڑوں روپے مالیت کی مشینری پچھلے دور حکومت میں پنجاب اور وفاق میں جاری محاذ آرائی کی وجہ سے کراچی بندرگاہ سے ریلیز نہ ہو سکی، اس وجہ سے 23 ارب روپے مالیت والے اس منصوبے کی لاگت 57 ارب روپے تک پہنچ گئی۔ چینی کمپنی ڈونگ فانگ الیکٹرک اپنے نقصانات کے ازالے کا مطالبہ کرتی رہی جبکہ چینی انجینئر پینسٹھ فی صد مکمل ہو جانے والے اس منصوبے پر کام چھوڑ کر واپس چین چلے گئے تھے۔ اب یہ کام دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔

Symbolbild- Proteste in Pakistan Elektrizitätsknappheit
پاکستان میں بجلی کا دیرینہ بحران: چینی تکنالوجی سے توقعات وابستہتصویر: Getty Images

پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے ہمراہ حال ہی میں چین کا دورہ کر کے آنے والے پنجاب اسمبلی کے رکن انجینئر قمر الاسلام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چینی کمپنیوں نے پنجاب میں ہوا، کوئلے اور سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے کے متعدد منصوبوں میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

راولپنڈی سے منتخب ہونے والے رکن پنجاب اسمبلی قمرالاسلام کے بقول گلیکسی ری نیو ایبل انرجی کمپنی پنجاب میں بارہ سو میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا ایک منصوبہ شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ چائنہ انرجی انجینئرنگ کمپنی نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے لیے پنجاب میں ایک درمیانے درجے کا پاور پلانٹ لگانے کے لیے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔ ایک اور چینی کمپنی نے پنجاب کے علاقے چنیوٹ میں موجود کوئلے کے چھ سو ملین ٹن کے ذخائر کی اسٹدی پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ قمرالاسلام کے بقول چین کی ایک سرکاری کمپنی سے پنجاب کے پانچ بڑے شہروں لاہور، ملتان، فیصل آباد، راولپنڈی اور گوجرانوالہ میں میٹرو بسیں چلانے کے حوالے سے ابتدائی معاہدہ ہو گیا ہے۔

پنجاب حکومت کے ذرائع کے مطابق چینی سرمایہ کاروں اور انجینئروں کا ایک وفد اگلے چند ہفتوں میں پاکستان کے دورے پر آنے والا ہے، جو مختلف منصوبوں کو حتمی شکل دینے کے لیے مختلف مقامات کے معائنے کے علاوہ متعلقہ حکام سے بات چیت بھی کرے گا۔

Südsudan China chinesische Ingenieure planen Ölförderung
چینی انگجینیئرز ہر شعبے اور ہر خطے میں مصروف عملتصویر: picture-alliance/Tong jiang

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں ایک سو بیس منصوبوں پر اس وقت بارہ ہزار چینی باشندے کام کر رہے ہیں۔ چین کے ساتھ پچھلے سالوں میں مختلف منصوبوں کے حوالے سے مفاہمت کی چھ سو سے زائد یادداشتوں پر دستخط ہوئے تھے۔ ان میں سے صرف دس فی صد کے قریب منصوبوں پر عملدرآمد ہو سکا۔

بین الاقوامی امور پر نگاہ رکھنے والے ایک پاکستانی تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ پاکستانی قانون کے مطابق صوبوں کو وفاقی حکومت کے پالیسی فریم ورک کے تحت دیگر ملکوں سے قرض لینے اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے مذاکرات کرنے کی اجازت ہے۔ ان کے بقول پنجاب کی صوبائی حکومت کو دیگر صوبوں پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ مرکز میں بھی پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت ہونے کی وجہ سے اسے وفاقی حکومت سے سہولتیں حاصل کرنا مشکل نہیں ہے۔ حسن عسکری کے بقول اصل بات دیکھنے کی یہ ہے کہ پنجاب کی حکومت نے چینی کمپنیوں کے ساتھ جتنے ایم او یو سائن کیے ہیں، ان میں سے کتنوں پر عملدرآمد ہوتا ہے۔

کیا پنجاب میں شروع ہونے والے چینی منصوبے دوسرے صوبوں میں احساس کمتری پیدا کرنے کا باعث بنیں گے، قمرالاسلام اس سوال کا جواب نہ میں دیتے ہیں۔ ان کے بقول حالیہ چینی دورے کے دوران بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے بھی میٹلرجی اور گوادر سے متعلقہ کئی منصوبوں کے حوالے سے معاہدے کیے ہیں۔ لاہور کراچی موٹروے سے پشاور اور کراچی کے عوام بھی مستفید ہوں گے، گوادر کاشغر روڈ شمالی علاقوں اور کے پی کے سے گذرے گی اور ان علاقوں کی معیشت پر بہتر اثرات مرتب کرے گی۔

پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ توانائی کے بحران کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کا صوبے میں آنا خوش آئند تو ہے لیکن پنجاب کی حکومت کو بیرونی سرمایہ کاری کے لیے پنجاب کے حالات کو سازگار بنانے کے لیے مؤثر عملی کوششیں کرنا ہوں گی۔ ان کے بقول صرف ایک ہفتے میں راجن پور اور انارکلی میں ہونے والے بدامنی کی دو بڑی وارداتوں نے پنجاب حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔