1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی قانون سازوں کا فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ

شکور رحیم، اسلام آباد5 جنوری 2015

قومی اسمبلی نے فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے آئین میں اکیسویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کے الگ الگ بل منظور کر لئے ہیں۔ یہ دونوں بِل دو سو بیالیس قانون سازوں نے متفقّہ طور پر منظور کیے۔

https://p.dw.com/p/1EFFS
Pakistan Parlament in Islamabad
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

آج تین سو بیالیس قانون سازوں میں سے دو تہائی سے زائد قومی اسمبلی میں موجود تھے۔ اب ان دونوں بِلوں کو توثیق کے لیے ایوان بالا میں پیش کیا جائے گا۔ توقع کی جارہی ہے کہ صدر پاکستان بھی رواں ہفتے ان پر دستخط کر دیں گے۔ یہ ترمیمی قوانین دو برس کے لیے نافذ العمل رہیں گے اور فوجی عدالتوں میں دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی سماعت کی جا سکے گی۔

گزشتہ روز ووٹنگ کا عمل موخر کر دیا گیا تھا۔ ان ترامیم کی منظوری کے لئے 342 کےایوان میں دو تہائی یعنی 228 اراکین کی موجودگی ضروری تھی تاہم ایوان میں موجود ارکان کی تعداد 218 تھی۔ قبل ازیں جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ووٹنگ میں حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک پریس کانفرنس کے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم پر انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم اصولی طور پر فوجی عدالتوں کے خلاف ہیں۔‘‘

آرمی ایکٹ میں مجوزہ ترمیم کے بعد کسی بھی ملزم پر حکومت کی پیشگی منظوری کے بعد مقدمہ چلایا جائے گا اور فوجی عدالت کو مقدمے کی منتقلی کے بعد مزید شہادتوں کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں بھیج سکے گی۔

Islamabad Pakistan neugewählter Präsident Sharif 05.06.2013
تصویر: picture-alliance/dpa

فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئین میں 21ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ میں ترامیم کے بعد پاکستان کے خلاف جنگ کرنے، فوج اور قانون نافذ کرنے والےاداروں پر حملہ کرنے والوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جاسکیں گے۔ اس کے علاوہ اغوا برائے تاوان کے مجرم اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو مالی معاونت فراہم کرنے والوں کابھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکے گا۔ مجوزہ ترامیم کے ذریعے مذہب اور فرقے کے نام پر ہتھیار اٹھانے اور کسی دہشت گرد تنظیم کے اراکین،سول اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے اوردھماکہ خیز مواد رکھنے یا کہیں لانے لے جانے میں ملوث افراد کو بھی فوجی عدالتوں کے ذریعے سزائیں دی جائیں گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں غیر معمولی حالات اور صورتحال کی وجہ سے فوجی عدالتوں کا قیام ناگزیر تھا۔

تاہم فوجی عدالت کے ایک سابق جج اور ہائیکورٹ کے وکیل کرنل (ر) انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ موجودہ ترامیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار کو بہت زیادہ وسعت دے دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آرمی ایکٹ انگریز کے دور میں بنایا گیا تھا۔ اس وقت بھی انگریزوں کے خلاف متعدد مسلح تحریکیں چل رہی تھیں لیکن انہوں نے کبھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ عام شہریوں کا فوجی قانون کے تحت فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیا جائے۔ لیکن موجودہ جمہوری حکومت کو نہ جانے یہ خیال کیوں سوجھا کہ عام شہریوں کا بھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیا جائے۔‘‘

انعام الرحیم کے مطابق حکومت تفتیشں اور استغاثہ کے نظام میں بہتری لا کر موجودہ عدالتوں سے ہی دہشت گردوں کو سزائیں دلوا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں آٹھ ہزار سے زائد سزائے موت کے قیدی ہیں انہیں کسی فوجی عدالت نے نہیں بلکہ عام عدالتوں سے سزائیں ہوئی ہیں۔

صوبہ پنجاب کے سابق گورنر اور پیپلز پارٹی کے رہنما ء لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کو فوجی عدالتوں کے قیام پر تحفظات کے باوجود موجودہ حالات میں اکیسویں آئینی ترمیم کی حمایت کرنی پڑی۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’یوں سمجھیے کہ ہمیں بادل نخواستہ زہر کا گھونٹ پینا پڑا ہے۔ فوجی عدالتیں ہمارے آئین کی بنیادی روح سے متصادم ہیں۔ انہیں تو عدالتیں کہنا بھی درست نہیں بلکہ ٹربیونل کہنا چاہیے۔‘‘

انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر چیز کا حل فوجی عدالتوں کو سمجھتے ہیں اور وہ جب بھی اقتدار میں آئے انہوں نے ایک ہی کام کیا۔ تاہم لطیف کھوسہ کے بقول اگر ان کی جماعت اس ترمیم کی حمایت نہ کرتی تو وزیر اعظم اور ان کی جماعت مسلم لیگ(ن) سارا نزلہ پیپلز پارٹی پر گراتے۔

دوسری جانب مفاد عامہ کے مقدمات دائر کرنیوالے سپریم کورٹ کے ایک وکیل طارق اسد نے اکیسویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کو سپریم کورٹ میں چلینج کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کی جانیوالی ترامیم کی ملکی آئین میں کوئی گنجائش نہیں۔