1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی فوج کو اسامہ کی موجودگی کا علم تھا، وکی لیکس

1 مارچ 2012

خفیہ معلومات کا انکشاف کرنے والی ویب سائٹ وکی لیکس نے دعوٰی کیا ہے کہ پاکستانی فوج کے بعض عہدیداروں کو القاعدہ کے سابق رہنما اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کا پہلے سے علم تھا۔

https://p.dw.com/p/14CF7
تصویر: picture alliance / dpa

یہ دعوٰی امریکا میں سکیورٹی معاملات کے تھنک ٹینک Stratfor نے اپنی ان ای میلز میں کیا ہے، جو وکی لیکس نے شائع کی ہیں۔

وکی لیکس نے رواں ہفتے کے اوائل میں پچاس لاکھ سے زائد خفیہ ای میلز شائع کرنے کا آغاز کیا تھا، جو ویب سائٹ کے بقول Stratfor کی ہیں۔ وکی لیکس کی ایک پریس ریلیز میں دعوٰی کیا گیا ہے کہ ان ای میلز کا تبادلہ جولائی 2004 سے دسمبر 2011 کے درمیان ہوا تھا۔

القاعدہ کا سابق رہنما گزشتہ برس مئی میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں امریکی فوج کے ایک خفیہ آپریشن میں مارا گیا تھا، جس کے بعد سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں کھچاؤ پیدا ہو گیا۔

کراچی کے تعلیمی ادارے SZABIST میں سوشیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ Stratfor کی ای میلز کی تصدیق کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’بعض ریٹائرڈ فوجی افسران کا اسامہ بن لادن سے بالواسطہ رابطہ تھا‘۔

Flash-Galerie Bin Laden Verfolgung Verfolgungsjagd Versteck USA
وکی لیکس نے دعوٰی کیا ہے کہ پاکستانی فوج کے بعض عہدیداروں کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا علم تھاتصویر: picture-alliance/dpa

وکی لیکس نے یہ دعوٰی بھی کیا ہے کہ اسے اس بات کا ثبوت ملا ہے کہ Stratfor نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل حمید گل کو رکنیت دے رکھی تھی۔ جنرل حمید گل طالبان کے لیے حمایت اور افغانستان سے بین الاقوامی فورسز کے یکطرفہ انخلاء کے مطالبات کے باعث ایک متنازعہ شخصیت ہیں۔

حمید گل اس وقت اسلامی جماعتوں کے اتحاد دفاع پاکستان کونسل کا حصہ ہیں، جس نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں امریکا اور نیٹو کی حمایت سے دستبردار ہو جائے۔

مغربی اور افغان حکام کافی عرصے سے آئی ایس آئی پر الزام لگاتے آئے ہیں کہ وہ افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کی خفیہ طور پر پشت پناہی کر رہی ہے۔ دوسری جانب آئی ایس آئی کا کہنا ہے کہ وہ امریکا کی زیر قیادت ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے پوری طرح وابستہ ہے۔

پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی پر ملک کے اندر بھی نکتہ چینی ہو رہی ہے اور ناقدین کا کہنا ہے کہ فوج پاکستان کے پر آشوب مغربی صوبے بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔ آئی ایس آئی کو پاکستان میں سیاسی کردار ادا کرنے پر بھی ہدف تنقید بنایا جاتا ہے، جس میں مبینہ طور پر بہت سی اسلامی اور سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی کرنا بھی شامل ہے۔

ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے کہا کہ پاکستانی سیاست پر آئی ایس آئی کے اثر و رسوخ میں کمی لانے کے لیے اس کے سیاسی ونگ کو بند کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان کی صورتحال کے باعث سویلین حکومت کے لیے آئی ایس آئی کو زیر مطیع لانا دشوار ہو گیا ہے۔

Ex-General Hamid Gul Pakistan
وکی لیکس کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کو Stratfor نے رکنیت دے رکھی تھیتصویر: AP

انہوں نے کہا، ’2008 ء میں سویلین حکومت نے آئی ایس آئی کو اپنے دائرہ کار میں لانے کی بہت سی کوششیں کیں جو بالآخر ناکام ہو گئیں۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے وقت بھی (آئی ایس آئی کے کردار کے بارے میں) بہت سے سوالات اٹھے تھے مگر فوج اور اس کی ایجنسیوں کے خلاف کچھ نہیں کیا جا سکا‘۔

پاکستان میں جمہوریت نواز قوتوں کو امید ہے کہ آزاد سپریم کورٹ فوج کے انٹیلی جنس اداروں کو کنٹرول کرنے میں مدد دے گی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اعلٰی عدالت میں فوجی ایجنسیوں سے باز پرس کی جا رہی ہے اور عدالت میں ان سے متعلق دو مقدمات زیر سماعت ہیں۔

پیر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان کی طرف سے کئی برس قبل داخل کروائے گئے مقدمے پر سماعت بحال کی، جس میں فوج کے سابق سربراہ مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی پر سیاست دانوں میں رقم تقسیم کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

رپورٹ: شامل شمس

ترجمہ: حماد کیانی

ادارت: عاطف بلوچ