1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی فوج ’ لسانی اور نسلی‘ شناخت سے خوفزدہ ہے،حسین حقانی

عنبرین فاطمہ عاطف توفیر
11 مئی 2018

پاکستانی کے سابق سفیر حسین حقانی اپنے ملک کے سخت نقادوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹر عاطف توقیر سے ایک خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا ہے کہ ریاستی نظریات ’’ دوبارہ تصور‘‘ کرنے کی ضرورت ہے۔   

https://p.dw.com/p/2xWqu
Pakistan USA Botschafter Husain Haqqani
تصویر: dapd

ڈی ڈبلیو: آپ کی حالیہ شائع ہونے والی کتاب  ’ری امیجینگ پاکستان‘یا  ’پاکستان کا دوبارہ تصور‘ میں آپ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست ہونا چاہئے۔ کیا یہ واقعی قابل حصول خیال ہے؟

حسین حقانی: میری حالیہ کتاب کا خیال کئی برس قبل سلمان رشدی کی گفتگو میں کی جانے والی اس بات سے ہی وجود میں آگیا تھا، جس میں انہوں نے کہا، ’ اگر قومیں تصوراتی سماج ہیں تو پاکستان انتہائی کمزور تصور ہے۔‘‘ پاکستان جس طرح جلد بازی میں وجود میں آیا تھا، اس پر کچھ درست نقطہ چینی کی جاتی ہے۔ ہم سےپہلے کی نسل اچانک سے اپنا بھارتی تشخص ختم کرتے ہوئے پاکستانی بنی۔ اس کے لیے انہیں ایک نظریے کی ضرورت تھی  لیکن میں پیدا ہی بہ طور پاکستانی ہوا اس لیے مجھے اس نظریے کی ضرورت نہیں۔

 میں نے اپنی کتاب میں  یہ خیال دیا ہے کہ اگر پاکستان کے تصور کو دوبارہ سوچنا پڑے تو میں کس طرح سے اس عمل میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہوں۔ تصور یا خیال کے بارے میں ایک اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ اسے دوبارہ سوچا جا سکتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ میں نے یہ کتاب تحریر کی۔

جو نظریاتی جہت 70 سالوں سے چلی آرہی ہے، اس کو راتوں رات نہیں پلٹایا جا سکتا۔مذہب کو نظریے سے علیحدہ کرنے کی بتدریج کوشش کرنا ہو گی۔ پاکستان کے عوامی اور عسکری رہنماؤں کو مل کر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوشش کرنا ہو گی کہ پاکستانی عوام یہ سمجھ سکیں کہ ان کے مصنوعی یا بناوٹی قومی بیانیے کے کیا غیر متوقع خطرات ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے  پہلا قدم یہ ہو گا کہ پاکستان کے لیے متبادل راستوں کے حوالے سے ایک مباحثے کا آغاز کیا جائے یعنی کچھ ایسا جس پر سابق فوجی ڈیکٹیٹر جنرل ضیاء کے زمانے میں پابندی عائد تھی۔

کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ ریاست کا ہی نظریہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان ٹوٹ پھوٹ یا انتشار کے خطرات کے باوجود اپنی بقا قائم رکھنے میں کامیاب ہے خصوصاﹰ سقوط ڈھاکا کے بعد۔ لیکن اس سے تو یہ مطلب نکلتا ہے کہ پاکستان بطور ایک قوم اور ایک ریاست کے خود کو اس وقت تک قائم نہیں رکھ سکتا جب تک کوئی جذباتی نظریہ نا شامل ہو۔ اگر ایسا ہے تو پاکستان کے پاس تصوراتی استدلال کے دلدل میں دھنسے کے سوا کوئی انتخاب نہیں کیونکہ ’اسلام آئیزیشن‘ مسلسل اندرونی تصادم سے بچنے کی ترکیب ثابت ہوتی رہی ہے۔

Pakistan Hussein Haqqani in Islamabad
تصویر: dapd

لگتا ہے کہ ان دنوں بہت سے پاکستانی شہری ریاستی نظریات کو چیلنج کر رہے ہیں۔ بڑے پیمانے پر چلائی جانے والی کئی تحریکوں کے دوران پاکستانی فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، جس کے بارے میں کئی تجزیہ کاروں کے مطابق وہ ملک میں اسلامی نظریے کی محافظ ہے۔ کیا فوج کے ادارے کو اس پیشرفت کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے؟

پاکستانی فوج ہمیشہ سے نسلی اور لسانی شناختوں کے حوالے سے خوفزدہ رہی ہے جن کے بارے میں اس کا ماننا ہے کہ وہ پاکستان کو توڑنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اگر کسی علاقے کو زیادہ خود مختاری دینے یا نسلی یا لسانی بنیاد پر نئے صوبوں کے قیام کی بات کی جاتی ہے تو ایسے مطالبات کو ملک مخالف سمجھا جاتا ہے اور دیگر ممالک (بھارت اور افغانستان) پر اس طرح کے مطالبات کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

پاکستان کے مشرقی حصے کی 1971ء میں علیحدگی دراصل اس طرح کے خوف کو مزید تقویت دیتی ہے۔

پاکستان کی قومی نظریاتی شناخت کو ہمیشہ سے ایک ایسی قوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو اس طرح کے نسلی گروپوں کو باندھ کر رکھے گی اور جو نسلی اور لسانی بندھن کو وقت کے ساتھ ساتھ کمزور کر سکتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ یکساں سلوک اور ایک حقیقی وفاقیت ہی وہ اصل چیز ہے جو پاکستان کو متحد رکھ سکتی ہے اور اسے طاقتور بنا سکتی ہے۔

پاکستانی سپریم کورٹ نے سابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف پر سیاست میں حصے لینے پر پابندی عائد کر دی اور پھر حال ہی میں وزیر خارجہ خواجہ آصف کو بھی نا اہل کر دیا گیا۔ آپ حکمران جماعت مسلم لیگ نواز گروپ کے خلاف پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے ان فیصلوں کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

نواز شریف کی برطرفی پاکستان کی مطلق العنان روایت کی موجودگی کو تقویت دیتی ہے۔ یہاں منتخب سیاست دان ، تعینات کیے گئے جرنیلوں، ججوں اور  سرکاری ملازمین کی متلون مزاجی اور  ’ اعلیٰ عدالتی فیصلوں ‘ کے تابع ہیں ۔ عین اسی انداز میں جو برطانوی نوآبادیاتی دور میں رائج تھے۔  اس کی مثال گزشتہ 70 سالوں سے سامنے ہے کہ کس طرح پاکستان کے منتخب وزرائے اعظموں کو یا تو قتل کر دیا گیا، انہیں برطرف کیا گیا یا ان سے سربراہ مملکت نے عسکری پشت پناہی کے زور پر زبردستی استعفیٰ لیا یا پھر انہیں بغاوت کے ذریعے معزول کیا گیا۔  نواز شریف خود ایک وقت میں فوجی اسٹیبلیشمنٹ کے حمایت یافتہ تھے لیکن اب جب وہ اسٹیبلیشمنٹ کو چیلنج کر رہے ہیں کو انہیں انہی عدالتوں کے ذریعے نشانہ بنایا جا رہا ہے جنہوں نے کبھی ان کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔