1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی عدالتی نظام بتدریج ای کورٹ سسٹم کی طرف بڑھتا ہوا

عصمت جبیں، اسلام آباد23 اگست 2016

پاکستانی عدالتی نظام میں مقدمات کے فیصلے ہونے میں ابھی تک عشرے لگتے ہیں، تاہم اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے وقت اور وسائل کی بچت کرتے ہوئے ملکی عدالتیں بتدریج ’ای کورٹ‘ یا الیکٹرانک کورٹ سسٹم کی طرف بڑھتی دکھائی دیتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JnkR
Pakistan Gebäude Oberster Gerichtshof in Islamabad
تصویر: dapd

پاکستان میں اب تک ای کورٹ سسٹم کسی حد تک پنجاب میں متعارف کرایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں بھی چند عدالتیں اسی جدیدیت کو اپنا رہی ہیں۔ لیکن الیکٹرانک کورٹ سسٹم کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستانی عدالتوں نے مکمل طور پر الیکٹرانک انداز میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ اب تک اس سے مراد عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کا ایسا استعمال ہے، جو وقت اور وسائل کے ضیاع کو روکنے میں مدد دے سکے۔

اسی نظام کے تحت وہ مقدمات جن میں گواہان بیرون ملک جا چکے ہوں، یا کسی ملزم یا گواہ کی جان کو شدید خطرہ ہو، یا پھر عدالتی کارروائی ویسے ہی سالہا سال سے مختلف وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہو، ایسے کئی مقدمات میں عدالتی سماعت اب ویڈیو لنک کے ذریعے ہو سکتی ہے۔

اس بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلقہ امور کے نگران ایڈیشنل رجسٹرار شکیل احمد قاضی نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ ای کورٹس کوئی بالکل نیا سسٹم نہیں ہے بلکہ یہ تو کورٹ کے کام میں مدد کا ایک طریقہ ہے، جس کو ای کورٹ کہنا غلط ہو گا۔

Shakil Qazi
اسلام آباد ہائی کورٹ کے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلقہ امور کے نگران ایڈیشنل رجسٹرار شکیل احمد قاضیتصویر: privat

شکیل قاضی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہاں، البتہ ای کورٹ ہمارے لحاظ سے دیکھیں تو اس حوالے سے ہم یہ کام کر چکے ہیں کہ کیسز کی انسٹیٹیوشن ہو چکی ہے، مقدمات کی بنیادی انفارمیشن کا اندراج جن میں کیس کا ٹائٹل، درخواست دہندہ اور شکایت کنندہ سے متعلق معلومات، کیس کا نمبر، کیٹیگری اور اس کیس سے متعلقہ وکلاء کے بارے میں معلومات جب ہم کمپیوٹر میں ڈالتے ہیں تو سسٹم خود بخود ایک فہرست تیار کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک عدالت روزانہ پچیس مقدمات کی سماعت کرتی ہے، تو سب سے پرانا کیس سب سے پہلے نمبر پر آ جاتا ہے۔ اس طرح ہم نے کورٹ آٹومیشن کر رکھی ہے۔ پھر یہ لسٹ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر شائع کر دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی مقدمے کی سماعت سے متعلق پیغام کسی بھی کیس سے متعلقہ افراد کو بھیج دیا جاتا ہے۔ اس پورے عمل میں کارروئی کے لیے کہیں کوئی کاغذ استعمال نہیں ہوتا۔‘‘

شکیل احمد قاضی کے مطابق ابھی تک پاکستانی عدالتی نظام میں صرف جدید ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے۔ لیکن اگر پورے ملک میں ای کورٹ سسٹم باقاعدہ طور پر اپنا لیا گیا، تو عدلیہ کی کارکردگی بہت تیز رفتار ہو جائے گی، مالی وسائل اور وقت کی بچت ممکن ہو جائے گی اور مجموعی طور پر لوگوں کو انصاف جلد مل سکے گا۔

Shah Khawar
لاہور ہائی کورٹ کے ایک سابق ایڈیشنل جج اور سینیئر ماہر قانون شاہ خاورتصویر: privat

لاہور ہائی کورٹ کے ایک سابق ایڈیشنل جج اور سینیئر ماہر قانون شاہ خاور نے اس بارے میں اسلام آباد میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''ہمارا معاشرہ اتنا ترقی یافتہ نہیں، نہ ہی ہمارے ملک کے ادارے عالمی اداروں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس لیے ای کورٹ سسٹم کو اپنانا تبھی ممکن ہو گا، جب ہم اپنے قانون میں تھوڑی رد و بدل کر لیں گے۔ ای کورٹ سسٹم سے ٹائم بھی بچتا ہےاور پیسہ بھی۔‘‘

شاہ خاور نے کہا کہ ویڈیو لنک کے ذریعے گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے کا مقصد زیر التوا مقدمات کو جلد از جلد نمٹانا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف مقدمات میں ایسے گواہ، جو غریب ہونے کے علاوہ دور دراز کے علاقوں میں رہتے ہوں اور عدالت میں نہ آ سکتے ہوں، ان کے لیے اسکائپ کے ذریعے ویڈیو بیانات ریکارڈ کروانے کی سہولت بھی موجود ہے۔

پاکستان میں اب تک ای کورٹس کا عملی طور پر مطلب کیا ہے؟ اس بارے میں سینیئر ماہر قانون اکرم شیخ سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ای کورٹس کا مطلب ماڈرن ٹیکنالوجی کا استعمال ہے، نہ کہ یہ کوئی نئی الیکڑانک عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ اگر کسی عدالت میں کوئی الیکٹرانک پٹیشن دائر ہو گی، تو اس کا جواب بھی الیکڑانک صورت میں ہی آئے گا۔ ''ایسا کچھ نہیں ہے۔ نہ ہی ابھی باقاعدہ کمپیوٹر فائلنگ ہوتی ہے۔ ابھی تک یہ صرف پنجاب میں شروع ہوا ہے اور یہ بھی ایک پائلٹ پراجیکٹ ہے۔‘‘

اکرم شیخ نے بتایا کہ انہوں نے 'میمو گیٹ کیس‘ میں عدالتی تحقیقات کے لیے امریکی شہری منصور اعجاز کا بیان بھی برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن میں ایک ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کیا تھا۔

اسی بارے میں خاتون بیرسٹر انطالیہ کمال نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ای کورٹ کے باقاعدہ فعال ہونے سے ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ کسی بھی کیس میں جو پندرہ بیس گواہان ہوتے ہیں، ان میں سے کئی کسی نہ کسی دوسرے شہر میں ہوتے ہیں، تو ان کو عدالت میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہو گی اور اسکائپ کے ذریعے ان کے بیانات لیے جا سکیں گے، جس سے وقت، پیسہ، توانائی اور وسائل کی بچت ہو گی۔ دوسری بات یہ کہ ریپ اور دہشت گردی جیسے حساس مقدمات میں ملزمان کا عدالتوں میں لایا جانا بہت پرخطر ہوتا ہے، تو ایسے مقدمات میں بھی ملزمان کے بیانات اسکائپ کے ذریعے جیل ہی سے ریکارڈ کیے جا سکتے ہیں۔

Akram Sheikh
اکرم شیخ نے بتایا کہ انہوں نے 'میمو گیٹ کیس‘ میں عدالتی تحقیقات کے لیے امریکی شہری منصور اعجاز کا بیان بھی برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن میں ایک ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کیا تھاتصویر: privat

انطالیہ کمال کے مطابق ای کورٹس کے بے شمار فائدے ہیں لیکن پاکستان میں یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں۔ مغربی ملکوں میں تو سب کچھ الیکڑانک ہی ہوتا ہے، ہمارے ہاں بھی آہستہ آہستہ ایسا ہو جائے گا۔ بیرسٹر انطالیہ کمال نے بتایا، ''لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے ابھی حال ہی میں ایک اسمارٹ فون ایپلیکیشن جاری کی، جو کوئی بھی اپنے موبائل فون پر انسٹال کر سکتا ہے۔ پھر اپنے کیس کا اپ ڈیٹ جاننے کے لیے آپ کو وکیل کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں، بلکہ آپ اس کیس کا اسٹیٹس اپنے اسمارٹ فون پر ہی معلوم کر سکتے ہیں۔‘‘

ماہرین کے مطابق ماڈرن انفارمیشن ٹیکنالوجی نے زندگی آسان تو بنا دی ہے، لیکن دیگر شعبوں کی طرح ای کورٹ سسٹم کا بھی ایک نقصان تو عین ممکن ہے، یعنی آئی ٹی نیٹ ورک کے خراب ہو جانا، سسٹم کا ہیک ہو جانا، کسی کمپیوٹر وائرس کا خطرہ یا پھر الیکٹرانک ڈیٹا کا 'کرپٹ‘ ہو جانا۔ یہ تمام امکانات اپنی جگہ مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔

پاکستان میں عام شہریوں کو ایسے کسی نظام سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے، اس بارے میں گزشتہ پانچ برسوں سے اپنے ایک مقدمے کے سلسلے میں عدالتوں کے چکر لگانے والے اسلام آباد کے رہائشی احسان الحق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ای کورٹس ان جیسے شہریوں کے لیے تو بڑی نعمت ثابت ہو سکتی ہیں، ''بجائے اس کے کہ ایک کیس کو لے کر برسوں انتظار کیا جائے، سارا وقت بس یہی انتظامات کیے جاتے رہیں کہ ملزمان یا گواہوں کو عدالتوں میں لانا لے جانا کیسے ہے، میری رائے میں تو ای کورٹ سسٹم انصاف کی فراہمی کو بہت تیز رفتار بنا سکتا ہے۔‘‘