پاکستانی صدر پرویز مشرف کے استعفے کی افواہوں کی تردید
30 مئی 2008اِس انگریزی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق صدر مشرف مستعفی ہونے کا اصولی فیصلہ کر چکے ہیں اور اس سلسلے میں باقاعدہ اعلان کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ چیف آف آرمی سٹاف اشفاق کیانی کے ساتھ گذشتہ روز ساڑھے تین گھنٹے کی طویل ملاقات میں صدر نے آرمی ہاؤس چھوڑنے کی بھی حامی بھر لی۔
اِس کے علاوہ فوجی بغاوتوں میں اہم کردار ادا کرنے والی ٹرپل وَن بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر عاصم سلیم باجوہ، جو کہ مشرف کے انتہائی با اعتماد ساتھی سمجھے جاتے ہیں، کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی صدر کی سیکیورٹی پر تعینات دو کمانڈو یونٹوں کو ایک انتہائی پیشہ ورانہ یونٹ کے ساتھ تبدیل کر دیا گیا ہے۔
صدر مشرف کے ترجمان راشد قریشی نے صدر کے استعفے سے متعلق تمام تر قیاس آرائیوں اور پریس رپورٹوں کی سختی سے تردید کی ہے۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل اطہر عباس نے بھی مشرف کیانی ملاقات اور فوج کے اندر تبادلوں کے دیگر واقعات کو معمول کی کارروائیاں قرار دیا ہے۔
سیاسی امور کی تجزیہ نگار نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر پر عاید پابندیوں میں نرمی، امریکی حکام کا صدر مشرف کے ساتھ بدلا ہوا لہجہ اور سب سے بڑھ کر پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف زرداری کی طرف سے صدر کو اقتدار سے علٰیحدگی کا مشورہ بھی خاصا معنی خیز ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ نُون کے رہنما نواز شریف کی جانب سے صدر کے مواخذے کے حوالے سے سخت موقف اختیار کرنے کے ردعمل میں وزیر اطلاعات شیری رحمان کا کہنا ہے کہ مواخذہ کوئی فردِ واحد نہیں کر سکتا۔
اگرچہ پاک فوج اور صدر مشرف کے ترجمانوں نے صدر کے استعفے کی خبروں کو بے بنیاد اور اُن سے متعلق انتظامی تبدیلیوں کو معمول کی کارروائی قرار دیا ہے، تاہم تجزیہ نگاروں کے خیال میں تازہ ترین صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو اِس میں کوئی شک نہیں کہ صدر مشرف اِس وقت سیاسی طور پر خاصے تنہا ہو چکے ہیں اور شاید اِسی احساس کے تحت وہ جلد اقتدار سے علٰیحدگی ہی میں اپنی عافیت سمجھیں۔