پاکستانی تعلیمی اداروں میں ہتھیار: حمایت بھی، مخالفت بھی
26 جنوری 2016ڈی ڈبلیو اردو کے فیس بک پیج پر خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں اسلحے کی موجودگی کی ممکنہ اجازت دیے جانے کے موضوع پر آن لائن بحث میں صارفین نے بڑی تعداد میں حصہ لیا اور اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ چند صارفین کی رائے:
مسرت شاہ نامی ایک صارف نے لکھا، ’’قلم اور اسلحہ دو متضاد چیزیں ہیں۔ اہل قلم جب اسلحہ اٹھائیں گے تو قلم اپنی افادیت خود بخود کھو دے گا۔ کیا ملکی سکیورٹی ادارے صرف اس لیے ہیں کہ وہ وزراء اور بیوروکریسی کو پروٹوکول دیں؟‘‘
محبوب قادری نامی ایک اور یوزر نے بھی یونیورسٹی انتظامیہ کو اسلحہ فراہم کرنے کی مخالفت کی۔ انہوں نے اپنے کومنٹ میں لکھا، ’’پولیس اور افواج کا کام ہتھیار چلانا ہے۔ ان کے علاوہ کسی کو ہتھیار رکھنے یا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانا چاہیے۔ اگر ایسا ہوگا تو یونیورسٹیوں کے طلبہ کے مابین لڑائیوں کی خبریں روز ملیں گی۔‘‘
اس کے برعکس ڈی ڈبلیو اردو کے فیس بک پیچ کے ایک ممبر محمد مزمل نے اساتذہ کو اسلحہ فراہم کرنے کی حمایت کی۔ انہوں نے لکھا، ’’میں ایک اسٹوڈنٹ ہوں اور میری رائے یہ ہے کہ ہمیں اسلحہ اور ٹریننگ دی جائے تاکہ ہم دہشت گردوں کا خود مقابلہ کر سکیں، کیونکہ پولیس یا فوج کبھی بھی بر وقت نہیں پہنچ پاتیں اور جب پہنچتی ہیں تو تب تک کافی نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔‘‘
اس بحث کو مزید دلچسپ بناتے ہوئے اظہر شاہ نامی ایک صارف نے لکھا، ’’ہر کلاس روم میں دلیر اور حوصلے والے دو سے تین لڑکے باقاعدہ تربیت یافتہ اور چهوٹے ہتهیاروں سے لیس ہونے چاہییں۔ اس طرح ہم دہشت گردوں سے بڑی حد تک محفوظ رہ سکتے ہیں اور بجائے دوسروں کا انتظار کرنے کے، یہ مسلح لڑکے خود دشمن کو مار سکتے ہیں۔‘‘
اس بحث میں تعلیمی اداروں میں ہتھیاروں کی موجودگی کی حمایت کے ساتھ ساتھ مخالفت بھی کی گئی اور دونوں طرح کی سوچ کے حامل صارفین کے پاس اپنے اپنے دلائل تھے۔ تاہم مجموعی طور پر ایسے رائے دہندگان کی تعداد مقابلتاﹰ زیادہ تھی، جن کا موقف یہ تھا کہ تحفظ کی ضمانت ایک حکومتی ذمہ داری ہے اور اساتذہ اور طلبہ کو براہ راست اسلحہ فراہم کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔