1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے لیے طلائی تمغہ جیتنا، زندگی کا بہترین لمحہ تھا

بینش جاوید
26 اپریل 2018

اکسیویں کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کا واحد گولڈ میڈل جیتنے والے  انعام بٹ کا کہنا ہے کہ طلائی تمغہ حاصل کرنے کے بعد جب پاکستان کا ترانہ بجایا گیا تو وہ لمحہ ان کی زندگی کا بہترین لمحہ بن گیا۔

https://p.dw.com/p/2wiZW
Wrestling - Commonwealth Gold - Muhammad Inam aus Pakistan
تصویر: Getty Images/J. Searle

ڈی ڈبلیو سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے اٹھائیس سالہ انعام بٹ نے کہا اس مرتبہ کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کوئی بھی طلائی تمغہ حاصل نہیں کر پا رہا تھا اور پورے پویلین میں مایوسی پھیلی ہوئی تھی۔ انعام بٹ کہتے ہیں کہ جب گیمز کے اختتامی دنوں میں انہوں نے طلائی تمغہ حاصل کر لیا تو پاکستانی کھلاڑیوں اور وفد میں خوشی کی لہر پھیل گئی۔

انعام بٹ کا تعلق پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر گجرانوالہ سے ہے۔ بٹ کا تعلق  ایک پہلوان خاندان سے ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میرے دادا پہلوان تھے، والد بھی اور میں نے بھی بچپن سے پہلوانی ہی کی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج میں بین الاقوامی سطح پر طلائی تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہوں۔‘‘ انعام نے بتایا کہ وہ پاکستان میں سولہ سال سے کم عمر کے کشتی مقابلوں کے چیمپئن رہ چکے ہیں جس کے بعد وہ تین سال تک جونیئر چیمپئن رہے اور پھر 2010 میں وہ بھارت میں منعقد ہونے والے کامن ویلتھ کھیلوں میں پاکستان کے لیے  گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب ہوئے۔

اکیسویں کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کل پانچ میڈل جیتنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ایک طلائی اور  چار کانسی۔ کانسی کے دو میڈل ویٹ لفٹنگ میں اور تین کشتی کے مقابلوں میں جیتے گئے ہیں۔ ان میں سے چار میڈل حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کا تعلق گجرانوالہ سے ہے۔ انعام بتاتے ہیں  گجرانوالہ کے کئی گھرانوں میں، جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ کھلونوں کے ساتھ کھیلنے کے بجائے، پہلوانی کرنا سیکھتا ہے۔ اس کی نشو ونما کشتی کے ماحول میں ہوتی ہے۔ بچپن سے کہا جاتا ہے کہ آپ نے ملک کے لیے میڈل جیتنا ہے۔  اس کامن ویلتھ گیمز میں انعام کے بھائی بھی کشتی کے مقابلے میں کانسی کا تمغہ جیتے ہیں۔

Wrestling - Commonwealth Gold - Muhammad Inam aus Pakistan
اکیسویں کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کل پانچ میڈل جیتنے میں کامیاب ہوا ہےتصویر: Getty Images/J. Searle

انعام بٹ نے بتایا،’’ پاکستان آج تک کامن ویلتھ گیمز میں پچیس گولڈ میڈل جیت چکا ہے، ان میں سے 21 طلائی تمغے ریسلنگ کے ہیں اور چار دوسری گیمز  میں جیتے گئے ہیں۔‘‘  بٹ کہتے ہیں کہ  اس اعدادو شمار کی بنیاد پر حکومت کو پہلوانی کے کھیل پر توجہ دینی چاہیے۔ بٹ نے کہا،’’جب کسی کھیل میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے  تو لوگ اس کو جان پاتے ہیں ۔ پاکستان ریسلنگ فیڈیریشن کا بجٹ سالانہ اٹھارہ لاکھ روپے ہے جو بہت ہی کم رقم ہے اور بہت سے کھلاڑی پرائیوٹ سپانسر رکھ کر تربیت کر پاتے ہیں۔‘‘ انعام کہتے ہیں  اگر بجٹ کو بڑھا کو دو سے تین کروڑ کر دیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ اس کھیل میں پاکستان اولمپکس کی سطح پر طلائی تمغے جیتنے میں کامیاب ہو سکے گا۔ انعام کے مطابق  بھارت کا ریسلنگ کے لیے بجٹ تیس کروڑ  بھارتی روپے ہے۔ لیکن پاکستان اس خطیر بجٹ کے ساتھ بھی گولڈ میڈل جیت لایا ہے۔

بٹ نے پاکستان ریسلنگ فیڈریشن کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ  یہ فیڈریشن مقابلوں کا انعقاد کرتی ہے۔ پہلے شہروں میں ٹرائلز ہوتے ہیں، پھر صوبائی سطح پر اور پھر قومی سطح پر مقابلے ہوتے ہیں۔ ان مقابلوں کو جیتنے والے کھلاڑیوں کے لیے پاکستان اسپورٹس بورڈ اور ریسلنگ فیڈریشن کی جانب سے کیمپ لگائے جاتے ہیں اور ان کی تربیت کی جاتی ہے۔ پھر جب کوئی بین الاقوامی مقابلہ ہوتا ہے تو دوبارہ مقابلہ کرا کر سب سے بہترین کھلاڑیوں کو چنا جاتا ہے۔