1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے قبائلی علاقے، دو دن میں 80 ہلاکتیں

25 دسمبر 2010

پاکستانی قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی علاقہ خار میں ہونیوالے خودکش حملے میں 43 افراد ہلاک جبکہ 68 زخمی ہوئے، زخمیوں میں تین بچے بھی شامل ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

https://p.dw.com/p/zpa3
تصویر: picture alliance/dpa

سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ دھماکہ پولیٹکل ایجنٹ کے دفتر سے کچھ فاصلے پر واقع چیک پوسٹ پر کیاگیا جہاں سلارزئی قبیلے کے لوگ موجود تھے ان کاکہنا ہے کہ دہشت گردی سے متاثرہ مختلف قبیلوں میں امداد کی تقسیم کے لیے الگ الگ دن مقرر کیے گئے ہیں۔ آج سلارزئی قبیلے میں امداد تقسیم کی جارہی تھی کہ یہ واقع رونما ہوا۔

Selbstmordanschlag in Pakistan
پاکستانی افواج زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرتے ہوئےتصویر: picture alliance/dpa

صوبہ خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان اور وزیر اطلاعات میا‍ں افتخارحسین نے اس دھماکہ کے مذمت کرتے ہوئے کہا، "دہشت گردی کی جڑیں افغانستان میں ہیں جب تک افغانستان میں موجود امریکہ اوراتحادی افواج، افغانستان اور پاکستان مل کر لائحہ عمل ا‌ختیار نہی‍ں کرتے، دہشت گردی کے خاتمے میں مشکلات ہونگی انکا کہناہے کہ تینوں فریقین نے مل کر آپس میں عدم اعتماد کی فضا کوختم کرنا ہوگا، ورنہ اس سے دہشت گردی میں اضافہ ہوگا۔ تینوں فریق آپس میں انٹیلیجنس معلومات کا تبادلہ کرکے دہشت گردوں کے خلاف مؤثر اقدامات اٹھائیں، اگرا یسا نہیں تو خیبرپختونخوا حکومت دہشت گردی سے نمٹے گی۔ ہم اسے ختم تونہیں کرسکتے لیکن اس کی شدت میں کمی لاسکتےہیں۔ ان کے نیٹ ورک کو کمزور کرسکتے ہیں اوران کے مراکز کونشانہ بنا سکتے ہیں۔"

قبائلی علاقوں میں ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی کاروائیوں میں ا‍ضافہ دیکھنے میں آیا ہے ایک روز قبل ہی صوبائی دارالحکومت پشاورسے پچاس کلومیٹر کے فاصلے پرواقع مہمند ایجنسی کے بائزی تحصیل میں عسکریت پسندوں نے سیکورٹی چییک پوسٹ پر حملہ کیا جس میں گیارہ سیکورٹی اہلکار اور چوبیس عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے۔

Selbstmordanschlag in Pakistan
پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہےتصویر: AP

خودکش حملوں اور دہشت گردی کی بڑھتی کاروائیوں کے خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاورمیں آج اکتیسویں قومی کھیلوں کاافتتاح کیاگیا ہے۔ دومرتبہ سیکورٹی خدشات کی بناپر ملتوی ہونیوالے ان کھیلوں کو 'کھیل برائے امن' کا نام دیاگیا ہے تمام ترخدشات اورخطرات کے باوجود ملک بھر سے سات ہزار کھلاڑی اورآفیشلز ان کھیلوں میں حصہ لینے پشاورپہنچ چکے ہیں۔

رپورٹ فریداللہ خان پشاور

ادارت: افسراعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید