1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کو جواب، بھارت ان پانچ طریقوں پر غور کر رہا ہے

امتیاز احمد20 ستمبر 2016

اتوار کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں واقع ایک فوجی اڈے پر ہونے والے ایک حملے میں کم از کم اٹھارہ فوجی مارے گئے تھے۔ بھارت کے ہندو قوم پرست وزیر اعظم پر شدید دباؤ ہے کہ وہ اس حوالے سے پاکستان کے خلاف کچھ کریں۔

https://p.dw.com/p/1K5U6
Indien New Delhi - Sitzung nach Uri Terrorangriff
تصویر: UNI

بھارتی حکام اور دفاعی اہلکاروں نے فوجی اڈے پر ہونے والے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے۔ بھارت میں عوامی سطح پر پاکستان مخالف جذبات اس وقت عروج پر ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بھارت پاکستان کو جواب دینے کے لیے ان پانچ طریقوں پر غور کر رہا ہے۔

بھارت کے سیاستدانوں، سابق فوجیوں اور کئی دیگر افراد نے قوم پرست نریندر مودی سے سخت ترین جواب دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے بھارتی فوج کو سرحد عبور کرتے ہوئے پاکستان میں موجود ٹریننگ کیمپوں کو نشانہ بنانا چاہیے۔

لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی فوج میں ایسا کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے اور نہ ہی ماضی میں بھارت نے کبھی ایسی کارروائی کی ہے۔ ایسی کسی بھی کارروائی سے بھرپور جنگ کے آغاز کا خطرہ موجود ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آگ کنفلِکٹ مینجمنٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اجی ساہنی اس بارے میں کہتے ہیں، ’’بھارت اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف پندرہ روز سے زائد جنگ کرنے کا اہل نہیں ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے۔‘‘

کچھ بھارتیوں کا کہنا ہے کہ بھارت کو لائن آف کنٹرول عبور کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف خفیہ آپریشن کرنا چاہیے۔ ویک میگزین کے ایک دفاعی نامہ نگار اجیت دوبے کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’بھارت نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کچھ خصوصی فورسز تعینات کر رکھی ہیں۔ بھارت اس مرتبہ ان کو استعمال کر سکتا ہے۔‘‘

بھارت میں جہاں ان تمام آپشنز پر غور کیا جا رہا ہے، وہاں آج ہی پاکستان اور بھارت کی سرحدی فورسز کے مابین دو طرفہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔ بھارت میں ایسی آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ نریندر مودی کو سرحد پر فوجیوں کی تعداد بڑھاتے ہوئے بھاری ہتھیاروں سے پاکستانی فوجی چوکیوں کو نشانہ بنانا چاہیے۔ تاہم پاکستان انتقامی کارروائی کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور جنگ بندی کا معاہدہ ایک مرتبہ پھر خطرے میں پڑ جائے گا۔

اجیت دوبے کہتے ہیں، ’’آئندہ دنوں میں جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں ہوں گی چاہے یہ عارضی ہی کیوں نہ ہوں لیکن دو طرفہ گولہ باری کا سلسلہ بڑھ جائے گا۔‘‘

گزشتہ کئی برسوں سے بھارت امریکا اور اپنے دیگر اتحادیوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان کو ’’دہشت گرد‘‘ ریاست قرار دیا جائے لیکن وہ ابھی تک اس میں ناکام رہا ہے۔ نریندر مودی نے جی ٹوئنٹی کانفرنس کے موقع پر بھی یہی کرنے کی کوشش کی تھی اور کہا تھا کہ صرف ’ایک قوم‘ جنوبی ایشیا میں ’دہشت گردی کے ایجنٹس‘ پھیلانے کی ذمہ دار ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق گزشتہ حملے کے بعد مودی اس کوشش کو مزید تیز کر دیں گے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ تازہ ترین حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ثبوت جمع کر رہے ہیں اور انہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

ڈوبے کے مطابق، ’’بھارت بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کرے گا اور اب اس کا ہدف کچھ آسان بھی ہے۔‘‘

بھارت کے مقامی میڈیا کے مطابق پاکستان سے ملکی سفیر کو واپس بلا لینا چاہیے۔

بھارت ایک طویل عرصے سے خاموشی کے ساتھ پاکستان کے وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان کے لوگوں کی حمایت کر رہا ہے۔ یہ صوبہ ایک علیحدگی پسند بغاوت اور فرقہ وارانہ تشدد کی زد میں ہے۔ لیکن بھارت نے ایک انتہائی غیر معمولی اقدام اٹھایا ہے۔ نریندر مودی نے ملکی یوم آزادی کے دن بلوچ علیحدگی پسندوں کی کھل کر حمایت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت بلوچستان کی آزادی کے نعرے کو پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کرے گا۔ اجیت ڈوبے کے مطابق، ’’بھارت اس سلسلے میں وسیع وسائل بروئے کار لانے والا ہے۔‘‘

تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت ایران کی طرح پاکستان کے خلاف معاشی پابندیاں عائد کروانے کی لابی کرے گا لیکن اس کا اثر نہ ہونے کے برابر ہوگا۔ کیوں کہ نہ تو اس کا اپنا تجارتی حجم پاکستان کے ساتھ زیادہ ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا بڑا ملک ایسا کرے گا۔

نیو انڈین ایکسپریس کے مطابق، ’’بھارت اگر تنہا معاشی پابندیاں عائد کرتا ہے تو اس کا اثر نہ ہونے کے برابر ہوگا۔‘‘