1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کرکٹ سے وابستہ افراد کےاثاثوں کی جانچ پڑتال

6 ستمبر 2010

پاکستانی کرکٹرز کے میچ فکسنگ اور سپاٹ فکسنگ اسکینڈلز میں تحقیقات کا دائرہ وقت کے ساتھ ساتھ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے بعد اب حکومت نے موجودہ اور سابقہ کھلاڑیوں کے اثاثوں کی تحقیقات کرنے کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/P5A6
تصویر: AP

پاکستان کے وفاقی ادارہ برائے محصولات نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم میں شامل رہنے والے کھلاڑیوں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس وفاقی ادارے کی جانب سے اس اقدام کا فیصلہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی طرف سے تین پاکستانی کھلاڑیوں کے میچ فکسنگ اور سپاٹ فکسنگ کے الزام میں معطل کئے جانے کے بعد کیا گیا ہے۔ پاکستان کے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو(FBR) نے اپنے افسران کو موجودہ اور سابقہ کرکٹرز کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثوں کے علاوہ ان کی ملکیت کاروں تک کی تعداد اور رجسٹریشن نمبروں کی تفصیلات بھی جمع کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ ایف بی آر کے ایک افسر اسرار رؤف نے بتایا کہ صرف کھلاڑیوں کے ہی نہیں بلکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کوبھی کہا گیا ہے کہ وہ بھی ٹیم کے سلیکٹرز، کوچز اور ٹیم مینیجرز کے حوالے سے اس ادارے کو تمام تر تفصیلات سے آگاہ کرے۔

Pakistan Cricket Manipulation
FBR نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم میں شامل رہنے والے کھلاڑیوں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کرنے کا اعلان کیا ہےتصویر: AP

دوسری جانب انگلنیڈ کی کرکٹ ٹیم کے ایک سابق کپتان جیف بائیکاٹ نے کہا ہے کہ پاکستانی کھلاڑیوں کے میچ فکسنگ اسکینڈل میں ملوث ہونے پر انہیں کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی۔ برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں بائیکاٹ نے کہا کہ پاکستانی کھلاڑیوں پراس سے قبل بھی بدعنوانی اور مختلف اسکینڈلز میں ملوث ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں لیکن متعلقہ بورڈ نے اس حوالے سے موثر اقدامات نہیں کئے۔ جیف بائیکاٹ کے بقول PCB اس طرح کے معاملات کو سلجھانے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے اور اسی وجہ سے یہ نیا اسکینڈل بھی کوئی اتفاق نہیں ہے۔ انگلش ٹیم کے اس سابق کپتان کے بقول پاکستان میں اکثر ہوتا یہ ہے کہ الزامات کی زد میں آئے ہوئےکھلاڑیوں کو وقتی طور پر ٹیم سے باہر نکال دیا جاتا ہے اور پھر تھوڑے ہی عرصے بعد وہ دوبارہ ٹیم کا حصہ ہوتے ہیں۔ ’’پھر تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔‘‘

جیف بائیکاٹ نے کہا کہ پاکستانی حکام اگر کرکٹ کو بچانا چاہتے ہیں تو انہیں لاڈز میں ہونے والے واقعے پر آنکھیں بند کرنے کے بجائے اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ ساتھ ہی انہوں نےICC کے بدعنوانی کی تحقیقات سے متعلق ادارے سے یہ اپیل بھی کی کہ محمد عامر کے معاملے میں کچھ رعایت برتی جائے۔ بائیکاٹ نے کہا کہ عامر ابھی صرف 18سال کے ہیں اور انہیں ٹیم کے سینیئر کھلاڑیوں نے میچ فکسنگ میں پھنسایا ہے۔ ’’اگر وہ سب کچھ صاف صاف بتا دیتے ہیں تو ان کی سزا میں نرمی کی جانی چاہیے کیونکہ یہ کرکٹ کے لئے بہت ضروری ہے۔ تاہم دیگر کھلاڑیوں کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔‘‘

Exemplare der englischen Tageszeitung Daily Telegraph
ڈیلی ٹیلیگراف میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں بائیکاٹ نے کہا کہ پاکستانی کھلاڑیوں پراس سے قبل بھی مختلف اسکینڈلز میں ملوث ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیںتصویر: AP

جیف بائیکاٹ نے اپنے اس اخباری انٹرویو میں برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ شواہد دیکھے بغیر سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کو بے قصور قرار نہ دیں۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں