پاکستان کا شمار سب سے زیادہ خیرات کرنے والے ممالک میں
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہری مجموعی قومی پیداوار کا ایک فیصد فلاح و بہبود میں صرف کر دیتے ہیں جس کے باعث پاکستان کا شمار سب سے زیادہ خیرات دینے والے ممالک میں ہوتا ہے۔
مجموعی قومی پیداوار کا ایک فیصد
’سٹینفورڈ سوشل اِنووویشن ریویو‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان خیرات کرنے والے ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو دنیا کے امیر ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ جیسے کہ برطانیہ، جہاں شہری مجموعی قومی پیداوار کا 1.3 فیصد خیرات کرتے ہیں، کینیڈا میں شہری 1.2 فیصد خیرات کرتے ہیں۔
سالانہ دو ارب ڈالر مالیت کے برابر عطیات
’پاکستان سینٹر فار پھلنتھروپی‘ کی جانب سے مرتب کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہری سالانہ دو ارب ڈالر مالیت کے برابر عطیات دیتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر اشیاء یا رقم اداروں کے بجائے مستحق افراد کو براہ راست دی جاتی ہے۔
زیادہ تر دی جانی والی رقم کی مالیت کم
اس ریسرچ کے مطابق زیادہ تر دی جانی والی رقم کی مالیت کم ہوتی ہے مگر وہ باقاعدگی سے دی جاتی ہے۔ یہ امداد زیادہ تر مستحق افرادکو دی جاتی ہے۔ ان افراد تک اداروں کی نسبت پہنچنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔
الی امداد زیادہ تر مساجد اور مدرسوں کو
اداروں کو دی جانے والی مالی امداد زیادہ تر مساجد اور مدرسوں کو دی جاتی ہے۔ لوگوں کے گھروں میں جا کر پیسہ جمع کرنے اور محلوں چندے کے لیے ڈبوں کے رکھے جانے سے یہ ادارے زیادہ رقم جمع کر لیتے ہیں۔
کم بھروسہ
پاکستانی عوام کا ایک طبقہ اس خوف سے کہ کہیں ان کی دی ہوئی رقم ضائع نہ ہو جائے، عام فلاحی تنظیموں کو کم دیتے ہیں اور زیادہ مستحق غریب افراد کو رقم یا اشیاء عطیہ کرتے ہیں۔
دولت کا ہونا
پاکستان میں صاحب حیثیت افراد نہ صرف اپنے قریبی مستحق افراد کی مدد کرتے ہیں بلکہ ان کی دولت سے خیراتی اداروں کی بھی مالی مدد کی جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مالی طور پر خوش حال افراد کے پاس خیراتی اداروں کے بارے میں معلومات بھی زیادہ ہوتی ہیں اور وہ بعض اوقات ان خیراتی اداروں سے منسلک بھی ہوتے ہیں۔
نوے فیصد خیرات براہ راست مستحق افراد
بلوچستان میں جہاں مالی اعتبار سے درمیانے اور نچلے درجے کے افراد کی تعداد زیادہ ہے وہاں نوے فیصد خیرات اداروں اور تنظمیوں کے بجائے براہ راست مستحق افراد کو دی جاتی ہے۔