پاکستان: پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے
3 اگست 2009اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پارلیمان بالا دست ہے اور جنرل مشرف کے خلاف مقدمے ایسے امور اس کی صوابدید میں شامل ہیں۔ غالباً اسی تناظر میں معروف مسلم لیگی رہنما اور قانون دان ایس ایم ظفر نے بھی سوموار ہی کے روز ایک پریس کانفرنس میں اس امر کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ نے سیاسی معاملات پارلیمان پر چھوڑ دیئے ہیں۔
ایس ایم ظفر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ معاملہ وہیں پر روک دیا جہاں تک ان کی اپنی حدود یعنی سپریم جوڈیشری اور ہائیر جوڈیشری کا تعلق تھااور اس کو درست کرنے کے لئے جو تمام کام کرنے تھے باقی معاملات کو سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے اوپر چھوڑا ہوا ہے۔
دوسری طرف سابق صدر کے خلاف غداری کے الزام میں آئینی کارروائی کے مطالبے بھی بلند ہو رہے ہیں جبکہ ڈاکٹر خالد رانجھا ایسے مشرف نواز وکلاء کے خیال میں اکتوبر 1999ء کی فوجی بغاوت یا 3 نومبر 2007ء کی ہنگامی حالت کے نفاذ میں جنرل مشرف اکیلے نہیں تھے۔
ڈاکٹر رانجھا کے مطابق اکتوبر1999ء کے مارشل لاء یا 3نومبر کے اقدامات میں صرف جنرل مشرف کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں اس وقت کے وائس چیف آف آرمی سٹاف ،چیئرمین جوائنٹ سٹاف، چاروں گورنر اور تمام کور کمانڈر زجو اس وقت بھی کور کمانڈر تھے اور اب بھی ہیں ،ان کا نام بھی ہے ۔ تو کیا آپ ان کور کمانڈرز، جن میں سے بیشتر اب بھی موجود ہیں، ان پر مقدمات چلا سکیں گے؟جب تک پارلیمنٹ اس کا فیصلہ نہیں کرتی اس وقت تک میرے خیال میں یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔
مبصرین کے خیال میں آئینی باریکیوں سے قطع نظر ہنگامی حالت سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے میں بلا شبہ اکتوبر 1999ء سے 17اگست2008ء کو جنرل مشرف کی اقتدار سے علیحدگی تک کے اقدامات اور فیصلوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا راستہ ہموار کر دیا اور اس وقت عام لوگوں کی نظریں بلا شبہ نواز شریف اور انکے ان ساتھیوں پر مرکوز ہو رہی ہیں جو جنرل مشرف کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔