1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں نجکاری، اقتصادی بحالی کی کوششیں

عصمت جبیں3 فروری 2014

محمد زبیر تھائی لینڈ میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ایک عشائیے میں شریک تھے، جب وزیر اعظم نے انہیں ان کی زندگی کی سب سے مشکل ذمہ داری کی پیشکش کی، پاکستانی معیشت کے ایک حصے کی نجکاری۔

https://p.dw.com/p/1B1rx
تصویر: Reuters

یہ کام اس لیے بہت مشکل تھا کہ ملکی اپوزیشن اور کارکنوں کی تنظیموں کی طرف سے مخالفت لازمی تھی۔ پھر جب نواز شریف محمد زبیر کو یہ پیشکش کرنے کے بعد کھانے کی میز سے اٹھ کر گئے، تو محمد زبیر کے ایک ساتھی نے ان کے قریب جا کر انہیں مشورہ دیا کہ وہ یہ پیشکش قبول نہ کریں۔ تب ان کے اس ساتھی نے کہا تھا، ’’پاکستان میں نجکاری کے نگران تین وزیر جیل جا چکے ہیں۔ ان کو اپنے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا بھی ہے۔ تم یہ پیشکش قبول نہ کرنا۔ ایسا کوئی کم عقل انسان ہی کرے گا۔‘‘ لیکن محمد زبیر نے نہ صرف وزیر اعظم نواز شریف کی یہ پیشکش قبول کر لی بلکہ امریکی کمپنی IBM کے مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے لیے اس سابق چیف فنانشل آفیسر نے اب یہ تہیہ بھی کر رکھا ہے کہ وہ پاکستان کی ان 68 پبلک کمپنیوں کے لیے خریدار ڈھونڈ لیں گے، جو مسلسل خسارے میں جا رہی ہیں۔

ان اداروں میں دو گیس کمپنیاں بھی شامل ہیں، ایک آئل کمپنی، قریب دس بینک، قومی ایئر لائن پی آئی اے، اور بجلی کی ترسیل کا کام کرنے والے کئی ادارے بھی۔ ان سب کمپنیوں کی نجکاری کا کام اگلے دو برسوں میں مکمل کیا جانا ہے۔

پاکستان کی معیشت کا مجموعی حجم 225 بلین ڈالر بنتا ہے۔ حکومت کا ارادہ ہے کہ غیر منافع بخش سرکاری اداروں کی فروخت سے ملکی معیشت کی حالت بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ پاکستانی معیشت کو جہاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے شدید نقصان پہنچ رہا ہے، وہیں پر بدعنوانی اور عسکریت پسندوں کی وجہ سے ہونے والی خونریزی بھی ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہی ہیں۔

Abwracken von Schiffen in Geddani Pakistan
پاکستان اسٹیل ملز کے خسارے کی مجموعی مالیت 100 بلین روپے سے زائد ہو چکی ہےتصویر: Roberto Schmidt/AFP/GettyImages

محمد زبیر نے ایک انٹرویو میں خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’ہم ہر سال ان بیمار تجارتی اور پیداواری اداروں کی وجہ سے 500 بلین روپے یا قریب 5 بلین ڈالر سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ہر روز کوئی نئی فائل کسی ایسے بیوروکریٹ کی میز تک پہنچتی ہے، جسے ایک ایسا فیصلہ کرنا ہوتا ہے، جس کے لیے اس نے کوالیفائی نہیں کیا ہوتا۔ بات یہ ہے کہ کچھ بھی ہو، یہ سب کچھ ایسے ہی جاری نہیں رہ سکتا۔‘‘

پاکستان میں جو بڑے بڑے قومی ادارے بری طرح خسارے میں جار رہے ہیں اور ملکی معیشت کو بہتر بنانے میں مدد دینے کی بجائے اس پر بوجھ بنے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک اہم مثال قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کی ہے۔

پی آئی اے 250 بلین روپے سے زائد کے نقصانات کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اس کے 40 طیارے گراؤنڈ کیے جا چکے ہیں اور بہت سی تجارتی پروازیں منسوخ کر دی جاتی ہیں۔ نوبت یہاں تک اس لیے پہنچی کہ ٹریڈ یونینیں اس کمپنی کی نجکاری کی سختی سے مخالفت کرتی ہیں۔ لیکن پاکستانی حکومت کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی سفارش بھی یہی ہے کہ پی آئی اے کو رواں برس دسمبر تک جزوی طور پر پرائیویٹائزکر دیا جانا چاہیے۔

ایک اور مثال پاکستان اسٹیل ملز کی ہے، جس کے خسارے کی مجموعی مالیت 100 بلین روپے سے زائد ہو چکی ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر سے اس کے ملازمین کو تنخواہیں بھی ادا نہیں کی گئیں۔ اس کے ملازمین کی کل تعداد ضروری افرادی قوت سے تین گنا زیادہ ہے۔ محمد زبیر کہتے ہیں، ’’میں یہ لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا لیکن سچ یہ ہے کہ موجودہ صورت حال اس ادارے کی عصمت دری ہے۔‘‘

Symbolbild- Proteste in Pakistan Elektrizitätsknappheit
مسلسل خسارے میں رہنے والے درجنوں سرکاری اداروں میں کئی پاور ڈسٹریبیوشن کمپنیاں بھی شامل ہیںتصویر: Getty Images

2006ء میں جب پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کی کوشش کی گئی تھی، تو یہ عمل ملکی چیف جسٹس کے حکم پر روک دیا گیا تھا۔ اب حکومت اس عمل کو کامیابی سے اس کی تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہے۔ محمد زبیر کہتے ہیں کہ پاکستان میں سرکاری خزانے پر شدید بوجھ کم کرتے ہوئے اگلے دو سال کے دوران نجکاری سے 5 بلین ڈالر تک کے مالی وسائل جمع کیے جا سکتے ہیں۔

گزشتہ برس ستمبر میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے تین سال کے عرصے میں اسلام آباد کو 6.7 بلین ڈالر کے قرضے مہیا کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ اگر یہ معاہدہ نہ کیا جاتا تو خدشہ تھا کہ پاکستان ممکنہ طور پر اپنے ذمے مالی ادائیگیوں کے قابل نہ رہتا۔ اب پاکستان کے لیے لازمی ہے کہ وہ طویل عرصے سے کیا جانے والا وہ وعدہ بھی پورا کرے، جس کے تحت خسارے میں چلنے والے ریاستی اداروں کی نجکاری کی جائے گی۔

پاکستان میں نجکاری کے نگران قومی ادارے کے کئی اہلکاروں کے بقول اب تک خسارے میں جانے والی کمپنیوں کی خریداری میں کئی ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں نے دلچسپی ظاہر کی ہے۔ لیکن اس ادارے کے سربراہ محمد زبیر کے لیے سب سے بڑا چیلنج کچھ اور ہے۔ یہ چیلنج ان ہزاروں کارکنوں کی طرف سے نجکاری کی مخالفت ہے جو ان اداروں کی فروخت سے بے روزگار ہو جائیں گے اور پاکستان کی وہ اپوزیشن سیاسی جماعتیں بھی، جو سرے سے ہی اس نجکاری کے خلاف ہیں۔