1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں طالبان ترجمان مولوی عمر گرفتار

18 اگست 2009

سیکورٹی فورسزنے مقامی لشکر کی نشاندہی پر تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مولوی عمر کو دوساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/JDXK
پاکستانی فوزسز کا طالبان کے خلاف آپریشن جاریتصویر: AP

تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مولوی عمر مہمند ایجنسی کے علاقہ خوینریزی سے اورکزئی ایجنسی میں منعقد ہونے والے طالبان کے ایک اہم اجلاس میں شرکت کیلئے جا رہے تھے کہ مقامی امن کمیٹی کے کارکنوں نے انہیں دوساتھیوں حنیف اللہ اور وحید اللہ سمیت گرفتار کر کے سیکورٹی فورسز کے حوالے کر دیا۔ مولوی عمر کو گرفتار کرنے کے بعد انہیں سٹریچر پر ڈال کر ہیلی کاپٹر تک پہنچایا گیا، جس سے ان کی حالت کااندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

پاکستانی سیکیورٹی فورسز بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد مولوی عمر کی گرفتاری کو ایک اہم پیش رفت قرار دے رہی ہیں۔ مولوی عمر سے سوات میں طالبان کے سربراہ فضل اللہ سمیت طالبان کی دیگر عسکری قیادت کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں گی۔

سیکیورٹی حکام کے مطابق مولوی عمر کا تعلق باجوڑ ایجنسی کے ماموند نامی علاقے سے ہے۔ ان کو تفتیش کیلئے مہمند ایجنسی سے پشاورمنتقل کر دیا گیا ہے جبکہ ان کے دوساتھیوں سے مومند ایجنسی میں خیبر رائفلز کے ہیڈ کوارٹرز میں پوچھ گچھ کی جائے گی۔

Baitullah Mehsud
بیت اللہ محسود گزشتہ دنوں ڈرون حملے میں ہلاک کر دیئے گئے تھےتصویر: picture-alliance/ dpa

مبصرین 24 گھنٹے میں طالبان کے دواہم رہنماﺅں کی گرفتاری کو ایک اہم پیش رفت اور طالبان نیٹ ورک کیلئے ایک زبردست دھچکا قرار دے رہے ہیں۔ فاٹا کے سابق بریگیڈیر (ر) محمود شاہ رستم کا کہنا ہے کہ "مولوی عمر کا القاعدہ کے بعض ارکان کے ساتھ رشتہ داری بھی ہے۔

دوسری جانب سوات طالبان کے ترجمان مسلم خان نے ایک طویل عرصے بعد کمشنر ملاکنڈ ڈویژن فضل کریم خٹک سے ٹیلی فون کے ذریعے رابطہ کیا ہے تاہم سرحد حکومت کے ترجمان میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ مسلم خان کی سوات کے کمشنر کو فون کرنے کی اب کوئی حیثیت نہیں رہی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے دہشت گردوں سے مذاکرات کے دروازے بند کردئے ہیں اور اب مسلم خان کا بھی وہی حشر ہوگا، جو مولوی عمر اور دیگر کا ہوا ہے۔

معروف تجزیہ نگار اور قبائلی امور کے ماہر رستم شاہ مومند کا کہنا ہے کہ " سیکیورٹی فورسز کی جانب سے آپریشن کے نتیجے میں طالبان لیڈر شپ کی ہلاکت اورگرفتاریوں نے ان کے حوصلے پست کردئے ہیں۔ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کی بھی ابھی صرف 90 فیصد تصدیق ہو سکی ہے۔ ان کی موت کے بعد طالبان گروپوں کے آپس میں اختلافات اور تصادم ان کے کمزور ہونے کی نشانی ہے۔ اسی طرح سیف اللہ، مولوی عمر اور کئی دیگر کی حراست جیسے اقدامات سے ان کی تحریک کا خاتمہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ طالبان گروپوں کے اندرونی اختلافات ان کے اپنے خاتمے کا اصل سبب بنیں گے۔"

انہوں نے کہا کہ "طالبان میں آپس کے اختلافات بھی ہیں اور اب عوام کی سپورٹ بھی اُنہیں حاصل نہیں رہی۔ مقامی لوگ لشکر بنا کر ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس طرح حکومت کا کام اب عوام کر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان علاقوں میں پولیٹکل ایجنٹ اور دیگر اداروں کو مضبوط کرے۔ ساتھ ہی حکومت کو آگے بڑھتے ہوئے محدود کارروائی کرنی چاہیےکیونکہ موجودہ تناظر میں اب کسی بڑی کارروائی کی ضرورت نہیں رہی۔"

مولوی عمر 2007ء میں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مقرر کئے گئے تھے۔ وہ طالبان کی جانب سے ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے کی تصدیق کرتے ر ہے ہیں۔ 2008ء میں پاکستانی میڈیا نے ایک فوجی آپریشن کے دوران مولوی عمر کی ہلاکت کی خبر دی تھی، جس پر انہوں نے خود میڈیا کو فون کر کے اس کی تردید کی تھی۔

مولوی عمر 2007ء میں باجوڑ ایجنسی میں ایک امریکی ڈرون حملے میں زخمی بھی ہوئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق طالبان عسکریت پسندوں نے اُنہیں بعض امور پر تنازعے کی وجہ سے ایک ماہ کیلئے اپنی نجی جیل میں بھی رکھا تھا۔ بعد ازاں انہیں رہا کر دیا گیا۔

مولوی عمر ابتدا ہی میں تحریک نفاذ شریعت محمدی سے وابستہ ہوگئے تھے۔ 2001ء میں افغانستان میں اتحادی افواج کے خلاف جنگ کیلئے مولوی صوفی محمد کی قیادت میں ہزاروں جوانوں کو افغانستان پہنچانے میں ان کا بڑا کردار رہا ہے۔

رپورٹ: فرید اللہ خان

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں