پاکستان میں دہشت گردی کی لہر، حکومت تذبذب کا شکار
9 دسمبر 2009اس بحث کی بنیادی وجہ جنرل ہیڈ کوارٹرز، مناواں پولیس اکیڈمی، سری لنکن کرکٹ ٹیم اور راولپنڈی میں پریڈ لین کی مسجد پر ہونے والےکمانڈو حملے ہیں۔ یہ حملےبھارت کے زیرانتظام کشمیر میں سرگرمِ عمل کالعدم لشکر طیبہ نامی تنظیم کی کارروائیوں سے خاصی مماثلت رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ وزیر داخلہ رحمنٰ ملک نے بدھ کے روز ایک بار پھر اس امر کا اعادہ کیا کہ دہشت گردی کے واقعات میں ’’بھارتی کردار‘‘ کےکئی ثبوت ملے ہیں، جو وزارت خارجہ کے حوالے کئے جا چکے ہیں : ’’یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ چار ٹرک بھارتی ساخت کے اسلحے سے بھرے ہوئے تھے ملے، اس کے علاوہ باڑہ میں بھی بھارتی ساخت کا اسلحہ وافر مقدار میں برآمد کیا گیا۔ اب یہ وزارت خارجہ کا کام ہے اور اب اس کو یہ بات واضح کرنا چاہئے کہ وہ اس معاملے کو کس طرح آگے بڑھاتی ہے۔‘‘
دوسری طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ محض جذباتی الزامات سے بھارتی مداخلت کو ثابت نہیں کیا جا سکتا اور اس کےلئے غیر معمولی احتیاط اور سوچ بچار درکار ہے: ’’ ہم جذباتی باتیں کر سکتے ہیں لیکن ان جذباتی باتوں کو جب منطقی نتیجے پر پہنچاتے ہیں اور قانون کے کٹہرے میں ان پر سوال اٹھتے ہیں تو اس بارے میں پہلے سے سوچ بچار ضروری ہے۔‘‘
دونوں وفاقی وزراء کے بیانات سے یہ تاثر جنم لے رہا ہے کہ حکومت دہشت گردی کی کارروائیوں کی تفتیش اور اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔ دو اہم ترین وزارتوں کے مابین اس انتہائی اہم مسئلے پر رابطوں اور صلاح مشورے کا بھی فقدان معلوم ہوتا ہے، جس کے باعث پاکستانیوں کی اکثریت اس مخمصے کا شکار ہے کہ نومبر0082ء میں ممبئی حملوں کے بعد کی علاقائی سیکیورٹی صورتحال میں پڑوسی ملک بھارت کا کیا کوئی کردار ہے؟ اور اگر ہے تو حکومت یک زبان ہوکر اس معاملے کو بھارت کے ساتھ اور بین الاقوامی سطح پر اٹھانے سے کیوں قاصر یا گریزاں ہے۔
رپورٹ : امتیاز گل، اسلام آباد
ادارت : عاطف بلوچ