1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ’حدوں کو پار کرتی‘ خفیہ ڈانس پارٹیاں

21 اگست 2012

مغرب میں پاکستان کو اکثر داڑھی والے، سخت گیر اسلام پسندوں اور برقعے والی پسی ہوئی خواتین کا مسلم معاشرہ خیال کیا جاتا ہے تاہم اس کا ایک پوشیدہ پہلو بھی ہے، جس پر نظر ڈالنے سے مشرق و مغرب کا فرق مٹتا دکھائی دیتا ہے۔

https://p.dw.com/p/15tO3
تصویر: picture-alliance/ZB

خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں ویک اینڈ پر خفیہ پارٹیاں معمول ہیں۔ ان پارٹیوں میں شارٹ سکرٹس میں ملبوس خواتین اور جیلی کی مدد سے بنائے گئے ہیئر اسٹائل والے مردوں کو ڈانس فلور پر تھرکتے دیکھا جا سکتا ہے۔

ملک میں شراب ممنوع ہونے کے باوجود وہاں شراب اور منشیات کا استعمال بھی عام ہوتا ہے جبکہ لاؤنجز میں بیٹھے جوڑے ایک دوسرے کو بانہوں میں لیتے اور بوس و کنار کرتے نظر آتے ہیں۔

ان پارٹیوں کے منتظمین اوسطاﹰ 60 ڈالر کے مساوی داخلہ فیس لیتے ہیں جو بہت سے پاکستانیوں کی ماہانہ آمدنی کے برابر ہے۔

Symbolbild Tanzen Club Pop Musik Disko Diskokugel
روئٹرز کے مطابق خفیہ پارٹیوں کا اہتمام فارم ہاؤسز میں کیا جاتا ہےتصویر: Fotolia/ryscheJR

چھوٹے قد اور لمبے بالوں والی رافعہ بھی ایسی پارٹیوں میں جاتی ہیں۔ وہ اس بات پر خفا ہوتی ہیں کہ بعض خواتین خفیہ موبائل فون رکھتی ہیں، جن پر ان کے والدین کی نظر نہ ہو۔ رافعہ کو اس بات کا بھی گلہ ہے کہ بعض خواتین قدامت پسند لباس کے نیچے جسم کی نمائش کرنے والے کپڑے بھی پہنتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’’یا تو آپ خوفِ خدا رکھ سکتے ہیں یا پارٹی کر سکتے ہیں۔‘‘

پاکستان کو دہائیوں سے ترقی پسند اسلامی ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ تاہم 1980ء کی دہائی کے آغاز سے اس کا جھکاؤ اسلام کی قدامت پسند شکل کی جانب ہونے لگا، جس کے نتیجے میں سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوا، شدت پسندی کو ہوا ملی اور برداشت کے چیمپئنز نے چُپ سادھ لی۔

اس کے باوجود پاکستان میں آج بھی مغرب زدہ امراء کا ایک بڑا طبقہ رہتا ہے، جن کا نجی رہن سہن بہت مختلف ہے۔ ان پارٹیوں میں اسی طقبے کی ایک اقلیت جاتی ہے۔

مجموعی طور پر پاکستان دبا ہوا معاشرہ نہیں ہے۔ وہاں خواتین آزادانہ ڈرائیونگ کر سکتی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر سکتی ہیں اور سیاست میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ غیر شادی شدہ مرد اور خواتین مل جُل سکتے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے لوگوں کو ان کی زندہ دلی کی وجہ سے جانا جاتا ہے، لیکن اسلام کی قدامت پسند شکل معاشرے سے برداشت کو مٹاتی جا رہی ہے۔

Pakistan Gouverneur Salman Taseer ermordet
سلمان تاثیر کو ان کے اپنے ہی ایک محافظ نے قتل کر دیا تھاتصویر: DW

عدم برداشت کی ایک مثال صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کا قتل تھا، جس نے بالخصوص امراء کو خوفزدہ کر دیا تھا۔ تاثیر کو ان کے اپنے ہی ایک محافظ نے توہینِ رسالت کے متنازعہ قانون کی مخالفت پر قتل کر دیا تھا۔

اسلام آباد کے پارٹی سرکٹ سے چند گھنٹوں کی مسافت پر قبائلی علاقے کے کچھ حصے طالبان شدت پسندوں کے زیر اثر ہیں۔ ان کے ایک سینئر کمانڈر کا کہنا ہے: ’’اکٹھے ناچنے والے مردوں اور عورتوں پر خدا کی لعنت ہے۔ ہمیں جب بھی اس طرح کی فحاشی کا مظاہرہ نظر آئے گا، ہم انہیں یقینی طور پر نشانہ بنائیں گے۔‘‘

ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق رواں برس کے آغاز پر افغانستان کے ساتھ سرحد سے ملحقہ ایک علاقے میں ایک قبائلی جرگے نے چار خواتین کو محض اس لیے قتل کرنے کا حکم دیا تھا کہ وہ شادی کی ایک تقریب میں تالیاں بجاتے ہوئے گا رہی تھیں جبکہ مرد رقص کر رہے تھے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی تفتیش کا حکم دیا تھا تاہم اس کی مزید تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔

گو کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت طالبان کی جانب سے سامنے آنے والی پرتشدد کارروائیوں کے خلاف نفرت کا اظہار کرتی ہے، لیکن بہت سے شہری ایسے بھی ہیں جو طالبان کی مانند اسلام کو پاکستان میں رہنما طاقت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

ng / mm (Reuters)