1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں جرمن سماجی محققین کی خدمات

23 جنوری 2010

یوں تو پاکستان میں متعدد جرمن شہری مختلف شعبوں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ تاہم لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز سے وابستہ ایک جرمن جوڑا ایسا بھی ہے، تدریس و تحقیق کے میدان میں جس کی خدمات منفرد ہیں۔

https://p.dw.com/p/LewT
تصویر: AP

اگر آ پ کو لاہور میں کسی صوفی بزرگ کے مزار پر جانے کا اتفاق ہو اور آپ وہاں ، شلوار قمیض پہنے کسی غیر ملکی گورے شخص کو قوالی سنتا ہوا دیکھیں تو یہ جان لیجئے گا کہ یہ صاحب، جرمنی کے ریسرچ اسکالر ڈاکٹر لوکاس ویتھ ہیں جو ان دنوں پاکستانی مزاروں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ جرمنی کے شہر برلن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر لوکاس پاکستان کی معروف دانش گاہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمس) میں سماجی علوم کے استاد ہیں۔

ڈاکٹر لوکاس کا مضموں انتھروپالوجی ہے جو سوشیالوجی کی ایک قسم ہے ۔ اس شعبے کو نوع انسانی کا علم بھی کہا جاتا ہے ۔ اس میں انسانوں کی ثقافتی ترقی اور معاشی حالات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ روانی کے ساتھ اردو بولنے والے یہ جرمن اسکالر بابا بلھے شاہ، خواجہ فرید اور وارث شاہ سمیت مختلف پاکستانی صوفیا کی تعلیمات سے آگاہی رکھتے ہیں اور تصوف ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے۔

ڈاکٹر لو کاس کہتے ہیں کہ صوفیا کی تعلیمات علم و دانش کا انمول خزانہ ہے۔ ڈاکٹر لوکاس یہ بھی کہتے ہیں کہ تصوف انسانوں سے پیار کرنا اور انسانوں کا خیال رکھنا سکھاتا ہے ۔ مسلمان صوفیا کی تعلیمات اور ان کی شاعری حکمت اور محبت کی باتیں لئے ہوئے ہے۔ ’آج جب پاکستان کو دہشت گردی کے چیلنج کا سامنا ہے، ایک مرتبہ پھر صوفیا کے کلام میں امن کے پیغام کو یاد کرنے کی ضرورت ہے۔‘

Produktion von Fußbällen im pakistanischen Sialkot
ڈاکٹر لوکاس کی اہلیہ دیہی خواتین پر تحقیق کر چکی ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

اگرچہ کئی ملکوں نے دہشت گردی کے خدشات کے پیش نظر اپنے شہریوں کو پاکستان کا سفر نہ کرنے کا مشورہ دے رکھا ہے، لیکن پاکستان میں سفر کا وسیع تجربہ رکھنے والے ڈاکٹر لوکاس کہتے ہیں کہ عام پاکستانی لوگ محبت کرنے والے ہیں۔ ڈاکٹر لوکاس کہتے ہیں کہ مغرب میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید پاکستان میں پیار اور محبت کے جذبات کا فقدان ہے، لیکن وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ جرمنی میں پیار کیلئے ایک خاص لفظ استعمال کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں اس ضمن میں پیار، محبت، الفت اور عشق سمیت کئی الفاظ ان جذبات کے اظہار کیلئے ملتے ہیں۔

اپنی تحقیقی ضروریات کے پیش نظر وہ ملک کے مختلف حصوں کا سفر کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ لوگ درباروں پر کیوں آتے ہیں۔ وہ کیا دعائیں مانگتے ہیں۔ عقیدت مندوں کے صوفیا سے تعلق کی نوعیت کیا ہے۔ صوفیا کلام کی تعلیمات کے پاکستانی معاشرے پر کیا اثرات رونما ہو رہے ہیں۔ یہ سب جاننے کیلئے ڈاکٹر لوکاس مزاروں پر جاتے ہیں، عقیدت مندوں سے ملتے ہیں اور تصوف کے چھپے گوشوں کا سراغ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ڈاکٹر لوکاس کہتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ پاکستان آج کل شدید مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ یہاں کئی مسائل بھی ہیں، لیکن ان کے مطابق اس سب کے باوجود اس ملک میں بہت سی اچھی باتیں بھی موجود ہیں، جو نظروں سے اوجھل ہیں۔

ڈاکٹر لوکاس کہتے ہیں کہ انہیں پاکستان میں رہنے کا موقع دیا جائے تو وہ لاہور میں رہنے کو ترجیح دیں گے۔ ڈاکٹر لوکاس لمس یو نیورسٹی میں ایک مقبول استاد کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں، پاکستانی پس منظر کے حامل طلبا کو، ایک یورپی پس منظر کے حامل پروفیسر کا پڑھانا اگرچہ آسان کام نہیں ہے لیکن ان کے مطابق یہ عمل ان کے لئے بھی سیکھنے کا ایک عمدہ تجربہ ہے۔

ڈاکٹر لوکاس اندرون سندھ کی دیہی زندگی پر ریسرچ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو افسوس ہے کہ انتھروپالوجی کے حوالے سے دوسری جنگ عظیم کے بعدسے اب تک اندرون سندھ کے دیہات کے طرز زندگی پر کوئی قابل ذکر تحقیقی کتاب نہیں لکھی گئی ہے۔ وہ ہنزہ ، گلگت اور شمالی علاقوں میں پائے جانے والے قدر ت کے حسین نظاروں کو دیکھنے کے متمنی ہیں۔

ڈاکٹر لوکاس کی اہلیہ ڈاکٹر انجم علوی ایک پاکستانی نژاد جرمن شہری ہیں۔ وہ بھی اپنے شوہر کے ہمراہ لمس یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ ڈاکٹر انجم نے پنجاب کی دیہی عورتوں اور ان کے رسم و رواج کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ ان کی ایک حالیہ تحقیق حیرت انگیز نتائج لئے ہوئے ہے۔ پنجاب کی دیہی عورتوں کے حوالے سے پائے جانے والے عمومی تاثر کے برخلاف ڈاکٹر انجم علوی کہتی ہیں کہ یہ عورتیں کمزور نہیں ہیں بلکہ انہیں کئی امور میں مردوں پر فوقیت حاصل ہے۔

ڈاکٹر انجم علوی کا کہنا ہے کہ مرد کیلئے یہ فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ وہ شادی کس گھرانے میں کرے اورزندگی کے شریک سفر کے انتخاب کا یہ فیصلہ بھی یعنی عورتیں (ماں یا بہنیں ) ہی کرتی ہیں۔

BdT Elite-Unis Blick am Freitag, 19. Oktober 2007 in die Bibliothek der Freien Universitaet in Berlin
فری یونیورسٹی، برلنتصویر: AP

انہوں نے روایتی تحقیق سے ہٹ کر عورتوں کےحجاب کے مسئلے پر بھی منفرد تحقیقی خدمات سر انجام دی ہیں۔ ان کے مطابق نقاب، برقعے یا اسکارف کو محض ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں سمجھنا چاہئےاور یہ محض کوئی علامت بھی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے گہرے تاریخی اور ثقافتی عوامل کار فرما ہیں۔

ڈاکٹر انجم کی پنجاب میں کی جانے والی رشتہ داریوں کی تحقیق بھی دلچسپ نتائج لئے ہوئے ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں عام طور پر زیادہ تر بچوں کی شادیاں ددھیال میں جبکہ بھارت میں زیادہ تر شادیاں ننھیال میں کرنے کو ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ ڈاکٹر انجم کے مطابق پنجاب کے دیہات میں خواتین کی طرف سے سوٹ کے کپڑے کو بطور تحفہ دینے کی روایت در اصل دو خاندانوں میں تعلقات کی شدت کو متعین کرنے کا اظہار بھی ہے۔

مدتوں پہلے انجم علوی پی ایچ ڈی کرنے کیلئے برلن کی فری یو نیورسٹی آئیں تو ان کے لئے زندگی آسان نہیں تھی۔ نا مساعد گھریلو حالات، جرمن زبان سے عدم واقفیت اور حالات کے جبر نے انجم علوی کی مشکلات میں بہت اضافہ کر دیا تھا۔ ان حالات میں،اسی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے والے لوکاس ان کیلئے مسیحا بن کر آئے۔ وہ دکھ اور سکھ کی گھڑیوں میں انجم علوی کے ساتھ رہے ۔ انجم کو لوکاس کا ہمدردارنہ رویہ اچھا لگا ۔ ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا یہ جذبہ ان دونوں اسکالرز کو قریب لے آیا اور انہوں نے زندگی کے سفر پر اکٹھے چلنے کا فیصلہ کیا۔

کئی برسوں پر محیط اس جوڑےکی خوشگوار زندگی کی زیادہ تر سر گرمیاں تدریسی اور تحقیقی امور کیلئے وقف ہو چکی ہیں ۔ ڈاکٹر لوکاس اور ڈاکٹر انجم کی خوشگوار زندگی کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر انجم کی والدہ لوکاس کو فرشتہ سیرت انسان کہتی ہیں اور ڈاکٹر لوکاس کے والد اپنی بہو کو کتابوں کا تحفہ دے کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔

ڈاکٹر لوکاس اور ڈاکٹر انجم علوی اپنی تحقیق کے ذریعے پاکستانی معاشرے کے چھپے گوشے دریافت کر نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ جرمن اسکالر عام پاکستانیوں سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے ان شعبوں میں کام کر رہے ہیں جن کو پاکستانی محقیقن نے بھی کبھی توجہ کا مستحق نہیں گردانا ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: ندیم گِل