1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخ

پاکستان میں ترقی تعلیم کے ذریعے، سیما عزیز کا مشن

بینش جاوید
8 فروری 2017

پاکستانی شہری سیما عزیز کا شمار جنوبی ایشیا کی اہم کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے لیکن ان کی اصل وجہ شہرت ان کی سماجی خدمات ہیں۔  وہ مستحق بچوں کے لیے ملک بھر میں سات سو سے زائد انگلش میڈیم اسکول چلا رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2XAVM
DW Local hero Seema Aziz, educationist in Pakistan.
تصویر: DW

پاکستانی صوبے پنجاب کے شہر لاہور میں سیما عزیز اپنے سادہ سے دفتر میں بیٹھی ہیں۔ آس پاس ’باریزے‘ برانڈ کی عمدہ کوالٹی کی شالیں لٹکی ہیں۔ میز پر دیوار کے ساتھ لگے ایک لکڑی کے اسٹینڈ پر ان کو ملنے والے ایوارڈز سجے ہیں۔

نرم لہجے میں گفتگو کرنے والی سیما عزیز بتاتی ہیں کہ سن 1988 میں  لاہور میں سیلاب آیا تو صوبائی حکومت کو لگا کہ راوی پل ٹوٹ جائے گا اور لاہور پانی میں ڈوب جائے گا۔ ایسے میں صوبائی حکومت نے ایک بند توڑ دیا، جس سے لاہور کے قریب کئی گاؤں پانی میں ڈوب گئے۔ اس علاقے میں بہت تباہی پھیل گئی۔ سیما کہتی ہیں، ’’ہم نے اس علاقے میں کھانے کی اشیاء تقسیم کیں اور وہاں  85 گھر بنائے۔‘‘ سیما کا کہنا ہے کہ انہوں نے اتنا بڑا سانحہ پہلے نہیں دیکھا تھا۔ سیما نے بتایا، ’’مجھے اندازہ ہوا کہ مجھ میں اور ان میں کیا فرق ہے اور وہ فرق صرف تعلیم کا تھا۔ اس وقت پاکستان میں صرف 20 سے 25 فیصد لوگ تعلیم یافتہ تھے۔ زیادہ تر لوگ تو اسکول ہی نہیں پہنچ پاتے۔‘‘ سیما کو احساس ہوا کہ اس علاقے میں اسکول ہی نہیں ہے اور اکثر وہاں بچے مٹی میں اٹے ہوتے تھے۔ انہوں نے بتایا،’’ مجھے احساس ہوا کہ میں انہیں کوئی بھی چیز دوں گی تو وہ چوری ہو سکتی ہے، سیلاب میں بہہ سکتی ہے۔ لیکن تعلیم کبھی گم نہیں ہوتی۔‘‘

سیما کہتی ہیں کہ انہیں وہاں لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا چاہتے ہیں، ’’میں نے لاہور سے پندرہ میل دور شیخوپورہ روڈ پر زمین خریدی اور اس پر اسکول بنایا جب اسکول بن گیا تو 17 جنوری 1991 کو مساجد میں  اسکول کھلنے کا اعلان کیا گیا۔ پہلے ہی دن 250 بچے رجسٹر ہوئے۔ ‘‘ وہ اس دن کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں،’’یہ بچے ننگے پاؤں، بہتی ناکوں ، جڑے ہوئے بالوں اور کھیس لپیٹے اسکول کے باہر کھڑے تھے۔ میں یہ دن کبھی نہیں بھول سکتی یہ بچے پڑھنا چاہتے تھے۔‘‘

اس سال کے اختتام پر دھوم مچ چکی تھی کہ اس اسکول میں بہت اچھی پڑھائی ہوتی ہے۔  سیما نے بتایا کہ اسی سال ان کے بیٹے نے ایچیسن اسکول میں داخلہ لیا اور انہوں نے اپنے بیٹے کے اسکول کا نصاب اپنے اسکول میں پڑھانا شروع کر دیا۔ اسی سال بچوں کی تعداد چار سو ہوگئی اس سے اگلے سال 800 ، آج اس اسکول میں دو ہزار لڑکے اور لڑکیاں پڑھ رہے ہیں۔

Pakistan Seema Aziz und Ihre Schüler
سیما عزیز اپنی قائم کردہ کئیر فاؤنڈیشن کے ذریعے اس وقت ملک بھر میں 700 سے زائد اسکول چلا رہی ہیںتصویر: CARE Foundation

سیما عزیز کہتی ہیں، ’’میں نہیں چاہتی تھی کہ اسکول اردو میڈیم ہوں کیوں کہ اگر امراء کے بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں تو غریب کا بچہ کیوں اردو میڈیم اسکول میں جائے۔ اندازہ ہے کہ پاکستان میں لگ بھگ 25 ملین بچے اسکول نہیں جاتے اور بہت زیادہ سرکاری اسکول اردو میڈیم ہیں، جن میں اکثر باتھ رومز اور پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات کی بھی کمی ہوتی ہے۔

سیما عزیز اپنی قائم کردہ کئیر فاؤنڈیشن کے ذریعے اس وقت ملک بھر میں 700 سے زائد اسکول چلا رہی ہیں۔ پنجاب کی صوبائی حکومت نے ان کی جدوجہد اور ان کے اسکولوں کے رزلٹ دیکھتے ہوئے کئی سرکاری اسکولوں کا انتطام بھی انہیں سونپ دیا ہے۔ اس وقت دو لاکھ سے زائد بچے ان اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ کیئر فاؤنڈیشن کے اسکولوں کے تعلیم یافتہ طلبہ و طالبات میں آج بہت سے ڈاکٹر، انجینئر اور کاروباری شخصیات شامل ہیں۔

سیما عزیز کے بقول انہیں افسوس ہوتا ہے جب مغرب میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں شدت پسندی بڑھ رہی ہے، ’’ اصل میں جو کوئی بھی تعلیم یافتہ نہیں، وہ ایک طرح سے معذور ہے اپنی مجبوری اور محرومی کی وجہ سے۔ تو آپ ایک معذور انسان سے کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ روشن خیال ہو گا؟‘‘

سیما پاکستان کے بارے میں بہت پر امید ہیں، ’’کئی دیہات میں لڑکیاں میلوں پیدل چل کر اسکول کالج جاتی ہیں۔ میں کبھی ایسے والدین سے نہیں ملی جو چاہتے ہوں کہ ان کے بچے تعلیم حاصل نہ کریں۔‘‘

Pakistan Seema Aziz
سمیا عزیز کو ان کے کاروبار کا 35 فیصد منافع ’باریزے‘ سے ہی حاصل ہوتا ہےتصویر: CARE Foundation

باریزے برانڈ کیسے وجود میں آیا؟

سیما عزیز نے بتایا کہ جب ان کے والد ریٹائر ہونے کو تھے تو جس کمپنی میں وہ کام کرتے تھے، اس نے ان کے والد کو کڑھائی کی تین سوئس مشینیں دیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میں نے اور میرے بھائی نے سوچا کہ ہمارے پاس اگر ایسی مشینیں ہیں تو ہم ان سے کپڑا بنائیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ 1983ء میں پاکستانی کپڑے کی ساکھ اچھی نہیں تھی۔ لوگ درآمدی کپڑا خریدنا پسند کرتے تھے۔ پھر سیما اور ان کے بھائی نے لاہور میں شادمان کے علاقے میں ایک بیسمنٹ میں ایک دکان لی، جہاں پہلے زیادہ تر بیرونی ممالک میں بنا ہوا کپڑا فروخت ہوتا تھا۔ ’’سب کہتے تھے کہ یہاں پاکستانی کپڑا نہیں بکے گا۔ لیکن ہمارا کپڑا بہت پسند کیا گیا اور اس پر ’میڈ ان پاکستان‘ کی مہر بھی لگی ہوئی تھی۔‘‘سیما کے مطابق تب لوگوں کو یہ سمجھانا بہت مشکل تھا کہ یہ کپڑا پاکستانی ہو کر بھی اتنا مہنگا کیوں ہے۔‘‘

سیما عزیز کا برانڈ ’باریزے‘ وقت کے ساتھ اتنا مقبول ہوا کہ پھر اسی نام کی دکانوں کا ایک باقاعدہ سلسلہ بھی وجود میں آ گیا۔ آج پاکستان میں اور بیرون ملک ’باریزے‘ کے مجموعی طور پر سینکڑوں اسٹور ہیں۔ سیما کہتی ہیں کہ وہ ہمیشہ یہ چاہتی تھیں کہ ان کے بنائے ہوئے کپڑے اور ملبوسات کا معیار بین الاقوامی سطح کا ہو لیکن وہ مکمل طور پر پاکستان میں ہی بنائے گئے ہوں۔

شینیئر، کیسیریا، دی لئیژر کلب، منی مائنرز سمیت اب ان کی کمپنی کے تیرہ چودہ برانڈز ہیں اور کل 610 دکانیں بھی۔ منی مائنرز پاکستان میں بچوں کے ملبوسات کا سب سے بڑا برانڈ ہے۔ سمیا عزیز کو ان کے کاروبار کا 35 فیصد منافع لیکن ابھی بھی ’باریزے‘ سے ہی حاصل ہوتا ہے۔