1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ’ایکو جہاد‘ کا آغاز

عنبرین فاطمہ، کراچی10 ستمبر 2013

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں جنگلات اور درختوں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مذہب کا سہارا لیتے ہوئے’ایکو جہاد‘ یا ’ تحفظ ماحول کے لیے جہاد‘ کا آغاز کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/19cuh
تصویر: DW/Johannes Beck

یاسرخان نامی نوجوان کا تعلق پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے ہے، جہاں وہ اپنے چند ہم عمر دوستوں کے ہمراہ اپنے شہر میں مختلف تنظیموں کی جانب سے ہونے والی شجر کاری مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ان کی نظر میں ایسا کرنے سے وہ نہ صرف تحفظ ماحول میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں بلکہ یہ ان کے لیے صدقہ جاریہ بھی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’کوئٹہ جیسے شہر میں، جہاں اکثر علاقوں میں آلودگی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے، شجرکاری سے ماحول کو تحفظ دیا جا سکتا ہے۔ میں بہت خوش ہوں کہ اپنے شہر کے ماحول کو تحفظ دینے کے لیے میں اور میرے چند ہم خیال دوست بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔‘‘

نوّے کی دہائی میں جب تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم ’انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر‘ (IUCN) نے کوہستان اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں کام کی ابتداء کی تو اسے مقامی کمیونٹی کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ وہ علاقے ہیں، جہاں مذہبی شخصیات کا اثر ورسوخ بہت زیادہ ہے۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تنظیم نے مساجد اور مذہبی شخصیات سے رابطہ کیا تاکہ وہ مساجد میں ماحولیات کے اسلامی نقطہ نظر کو بیان کرتے ہوئے عام لوگوں میں اس کی اہیمت کا شعور بیدار کریں۔ اس طریقہ کار کو ’ایکو جہاد‘ یا ’تحفظ ماحول کے لیے جہاد‘ کا نام دیا گیا۔

Quinoa Bolivien
تصویر: A.Raldes/AFP/GettyImages

’آئی یو سی این‘ سے وابستہ سینئیر ایڈوائزر کوسٹل ایکو سسٹم محمد طاہر قریشی کے مطابق اس منصوبے میں لوگوں کو ماحول اور قدرتی وسائل کے تحفظ کے حوالے سے اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنے کے لیے مساجد میں جمعہ کی نماز سے قبل ہونے والے خطبات کا سہارا لیا گیا، ’’اس میں ہم نے کوشش کی ہے کہ عام لوگوں، اسٹیک ہولڈرز اور حکومتی اداروں کواس جانب متوجہ کریں کہ اسلام اور قرآن میں ماحول اور اس کے بچاؤ سے متعلق احکامات موجود ہیں۔ اسلام صفائی کو نصف ایمان قرار دیتا ہے اور اس صفائی سے مراد زمین، فضاء اور آبی ماحول و وسائل کا تحفظ بھی ہے۔‘‘

یہ تجربہ نہایت کامیاب رہا اور یوں یہ اُمید جاگی کہ پاکستان میں بھی دیگر اسلامی ممالک کی طرح ماحولیاتی تحریک کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ اس کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جن علاقوں میں ماحول کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا وہاں کئی مثبت اقدامات دیکھنے کو ملے۔ طاہر قریشی کے مطابق، ’’ان علاقوں میں جہاں فضلہ غیر محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگایا جاتا تھا، اب وہاں بائیو گیس کے پلانٹس ہیں، اس فضلے کو کھاد کے طور بھی استعمال کیا جانے لگا ہے۔ جو پانی کے چشمے تھے، ان میں کپڑے دھو کر اسے بھی خراب کیا جا رہا تھا۔ تاہم اب یہ نظر آنے لگا ہے کہ لوگ اس میں بھی احتیاط کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد اب یہ ہے کہ بلوچستان میں اس پروگرام کی کامیابی کے بعد اسے صوبہ سندھ اور دیگر صوبوں میں بھی متعارف کروایا جائے۔‘‘

طاہر قریشی کہتے ہیں کہ مساجد سے دیے جانے والے خطبوں کے ذریعے بچوں اور نوجوانوں میں بھی تحفظ ماحول کا شعور بیدار ہوا، ’’اسکول کے بچے اور نوجوان، جو شجر کاری میں حصہ لیتے ہیں ہم ان کو بھی یہ باور کرواتے ہیں کہ وہ پیغمبر اسلام کی سنت پر عمل کررہے ہیں کیونکہ نہ صرف ہمارے پیغمبر بلکہ حضرت علی نے بھی شجر کاری کی اور کھجور کے کئی درخت لگائے۔ یعنی اگر یہ بچے اور نوجوان شجرکاری کر رہے ہیں تو در اصل یہ صدقہ جاریہ ہے اور انہیں اس وقت تک ثواب ملتا رہے گا، جب تک ان کے سائے سے کوئی فائدہ اٹھا رہا ہے یا اگر وہ پھلدار درخت ہے تو لوگ اس کے پھل کو استعمال کر رہے ہیں۔‘‘

طاہر قریشی کے مطابق دیکھا جائے تو تحفظ ماحولیات اور دیگر قدرتی وسائل کا تحفظ عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک میں ایکو جہاد یا ماحولیاتی صفائی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔