1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں افغان مہاجرین کا قیام، توسیعی معاہدے پر دستخط

16 فروری 2017

پاکستان میں مقیم لاکھوں رجسٹرڈ افغان مہاجرین سے متعلق اسلام آباد میں منگل اور بدھ کو ایک سہ فریقی کمیشن کا دو روزہ اجلاس ہوا، جس میں ان مہاجرین کے پاکستان میں قیام کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی گئی۔

https://p.dw.com/p/2XiqH
Pakistan Afghanistan Flüchtlinge
مہاجرین سے متعلقہ امور کے افغان وزیر سید حسین عالمی بلخی، دائیں، پاکستانی وزیر عبدالقادر بلوچ کے ہمراہتصویر: DW/I. Jabeen

اس کمیشن کے اجلاس میں پاکستانی اور افغان حکومتوں کے اعلیٰ نمائندوں کے علاوہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کے پاکستان میں سربراہ نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں پاکستان میں مقیم لاکھوں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے قیام اور ان کے لیے طویل المدتی ویزوں کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

یہ اجلاس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کے تحت گزشتہ برس نومبر میں پاکستان کی وفاقی کابینہ نے افغان مہاجرین کے پاکستان میں قیام کی مدت میں محدود توسیع کی منظوری دے دی تھی۔

اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ہونے والے تازہ اجلاس میں تینوں فریقوں نے افغان مہاجرین کے پاکستان میں قیام کی مدت میں توسیع پر اتفاق کرتے ہوئے ایک ایسے معاہدے پر دستخط کر دیے، جس کے تحت اب یہ مہاجرین اس سال دسمبر کے آخر تک پاکستان میں قیام کر سکتے ہیں۔

اس اجلاس میں افغانستان کی نمائندگی کابل حکومت کے مہاجرین سے متعلقہ امور کے وزیر سید حسین عالمی بلخی اور پاکستان میں افغان سفیر عمر زاخیل وال نے کی جبکہ پاکستان کی نمائندگی وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ اور یو این ایچ سی آر کے نمائندگی پاکستان میں اس ادارے کے سربراہ اندریکا رتواٹے نے کی۔

اجلاس میں شریک مہاجرین کے امور کے افغان وزیر سید حسین عالمی بلخی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں پاکستانی حکومت کے اس اقدام کو سراہتے اور کابل حکومت کی کوششوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستان سے جو افغان مہاجرین واپس جا رہے ہیں، افغان حکومت ان میں سے ہر خاندان کو زمین دے رہی ہے اور حکومت نے اس مد میں مہاجرین کے لیے ملک میں ستائیس جگہیں بھی مختص کی ہیں۔ وہاں ہر اس افغان مہاجرخاندان کو جو پاکستان سے واپس آتا ہے، ایک ایک پلاٹ دیا جا رہا ہے۔‘‘

Pakistan Afghanistan Flüchtlinge
تیسرے فریق کے طور پر معاہدے پر دستخط کرنے والے پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے سربراہ اندریکا رتواٹےتصویر: DW/I. Jabeen

جب ڈی ڈبلیو نے ان سے یہ پوچھا کہ آیا افغان حکومت ایسے مہاجرین کو وطن واپسی پر نئے گھر بنانے کے لیے مالی مدد بھی فراہم کرے گی، تو انہوں نے کہا کہ کابل حکومت تو نہیں البتہ اس حوالے سے بین الاقوامی غیر سرکاری امدادی ادارے ایسے افغان شہریوں کی مدد کر رہے ہیں۔‘‘

پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے مسائل میں سے دوسرا سب سے بڑا مسئلہ طویل المدتی ویزوں کا حصول ہے۔ کچھ رجسٹرڈ مہاجرین اگر مختلف تعلیمی اداروں سے منسلک ہیں تو کچھ کے کاروبار بھی پاکستان میں ہیں جبکہ بہت سے افغان مہاجرین نے پاکستان میں شادیاں بھی کر رکھی ہیں۔ ان حالات میں ایسے تمام افغان شہریوں کی ان کے وطن واپسی بظاہر ایک مشکل بات ہے۔

اس مسئلے کے ممکنہ حل پر روشنی ڈالتے ہوئے پاکستان میں ’سیفران‘ کے وزیر عبدالقادر بلوچ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’رجسڑڈ افغان مہاجرین کو لانگ ٹرم ویزا دینے کی مد میں بھی کام جاری ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی افغان طالب علم کو کسی میڈیکل کالج میں پڑھتے ہوئے ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا ہو، تو اس کو اپنی تعلیم پوری کرنے کے لیے مزید ویزا دیا جائے گا تاکہ وہ سکون سے اپنی تعلیم پاکستان میں جاری رکھ سکے اور کوئی اس کو تنگ نہ کرسکے۔‘‘

عبدالقادر بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسے افغان مرد جنہوں نے پاکستانی خواتین سے شادیاں کر رکھی ہیں، ان کو بھی طویل المدتی ویزے دیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ایسے رجسٹرڈ افغان مہاجرین جن کے کاروبار پاکستان میں ہیں، ان کو بھی مکمل جانچ پڑتال کے بعد لانگ ٹرم ویزے جاری کر دیے جائیں گے۔ لیکن ایسے ویزوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہو گی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے نہ تو پہلے کبھی اپنے ہاں سے ان رجسڑڈ افغان مہاجرین کو نکالا ہے اور نہ ہی اب ایسا کیا جائے گا۔

Pakistan Afghanistan Flüchtlinge
تصویر: DW/I. Jabeen

اس اجلاس میں خود بھی شرکت کرنے والی یو این ایچ سی آر پاکستان کی ترجمان دنیا اسلم خان نے جمعرات سولہ فروری کے روز ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ سال دو ہزار سولہ کے دوران جنوری سے لے کر نومبر تک تین لاکھ اسّی ہزار سے زائد رجسٹرڈ افغان مہاجرین واپس گئے لیکن چونکہ پچھلے سال یکم دسمبر سے شدید سردی کی وجہ سے ان رجسٹرڈ مہاجرین کی افغانستان واپسی کا سلسلہ روک دیا گیا تھا، اس لیے اب یکم اپریل سے یہ سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے گا۔

دنیا اسلم خان نے کہا کہ ہر افغان مہاجر خاندان کو فی فرد چار سو ڈالر تک دیے جائیں گے۔ مثال کے طور پر اگر کسی خاندان میں آٹھ افراد شامل ہیں توانہیں بتیس سو ڈالر تک ادا کیے جائیں گے جو اچھی خاصی رقم ہو گی تاکہ یہ افغان باشندے واپس جا کر اپنے ملک میں نئی زندگی شروع کر سکیں۔

ایسے مہاجرین کو فی کس چار سو امریکی ڈالر کی ادائیگی کا یہ سلسلہ پچھلے سال جولائی میں شروع کیا گیا تھا۔ اس سے قبل تک فی مہاجر صرف دو سو ڈالر ادا کیے جاتے تھے۔

اسلام آباد منعقدہ تازہ اجلاس میں شریک افغان سفارتخانے کے ایک اہلکار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس اجلاس میں پاکستان میں مقیم غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو رجسٹر کرنے کے بارے میں بھی تفصیلی گفتگو ہوئی اور پاکستان اور افغانستان دونوں کے مابین اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ دونوں ملکوں کے وفود مل بیٹھ کر یہ فیصلہ کریں گے کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق اس وقت پاکستان میں تیرہ لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں جبکہ چھ لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین بھی پاکستان میں رہتے ہیں۔ تاہم کئی ماہرین کے مطابق پاکستان میں غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی اصل تعداد چھ لاکھ سے کہیں زیادہ ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں