1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: مدرسوں کو قانون کے دائرے میں لانے کی کوششیں

افسر اعوان16 جون 2015

گزشتہ برس پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے کے بعد پاکستانی حکومت نے ملک میں قائم مذہبی مدرسوں کو قانونی دائرے میں لانے کا عزم ظاہر کیا تھا، تاہم بنیاد پرست عناصر کی طرف سے ایسی کوششوں کی مخالفت کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1FhzF
تصویر: RIZWAN TABASSUM/AFP/Getty Images

پشاور حملے کے بعد ملک میں دہشت گردی اور شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے ’نیشنل ایکشن پلان‘ بنایا گیا جس کے تحت نہ صرف ملک میں چھ برس سے جاری سزائے موت پر پابندی ہٹا لی گئی تھی بلکہ دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔

اس منصوبے میں یہ تجویز بھی پیش کی گئی تھی کہ ملک میں قائم مذہبی تعلیم فراہم کرنے والے 13 ہزار مدرسوں پر بھی نظر رکھی جائے گی۔ ان میں سے 97 فیصد مدرسے پرائیویٹ طور پر چلائے جا رہے ہیں۔ ان مدرسوں میں 18 لاکھ کے قریب بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پشاور حملے کے بعد یہ خدشات تقویت پکڑ گئے ہیں کہ ان میں سے بعض مدرسے اپنے طلبہ کو عدم برداشت اور یہاں تک کہ شدت پسندی کی تعلیم دے رہے ہیں۔

ایسے ہی مدرسوں میں سے ایک اسلام آباد کے متمول علاقوں میں سے ایک میں قائم جامعہ فریدیہ نامی مدرسہ بھی ہے جو مولانا عبدالعزیز کی سربراہی میں کام کر رہا ہے۔ انہی کی سربراہی میں لال مسجد کے طلبہ کی طرف سے شدت پسندانہ اقدامات کے بعد 2007ء میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

مولانا عبدالعزیز کو متنازعہ بیانات کے حوالے سے جانا جاتا ہے جن میں دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ کی توصیف کے علاوہ یہ بیان بھی شامل ہے جس میں انہوں نے پاکستانی طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔

پاکستانی حکومت کی طرف سے مدرسوں کو ملکی قوانین کے دائرہ کار میں لانے کی کوششوں پر کئی مذہبی رہنماؤں کی طرف سے تنقید کی گئی ہے۔ یہ لوگ ایسی کسی بھی کوشش کو اسلام مخالف قرار دیتے ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ کے ترجمان عبدالقدوس کے مطابق، ’’آئینی ترمیم میں۔۔۔ مذہب اور مسلک کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جو اسے جانبدار بناتی ہے۔‘‘ پاکستان میں مدرسوں کے اس سب سے بڑے گروپ کے ترجمان کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں بہت زیادہ یقین ہے کہ حکومت مذہبی اداروں کو نشانہ بنانا چاہتی ہے۔ لیکن ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔‘‘

لال مسجد کے طلبہ کی طرف سے شدت پسندانہ اقدامات کے بعد 2007ء میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے
لال مسجد کے طلبہ کی طرف سے شدت پسندانہ اقدامات کے بعد 2007ء میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھےتصویر: AP

اس کے علاوہ پاکستان کے دوست اور دولت مند خلیجی ممالک کی طرف سے بھی ایسی کسی کوشش کے خلاف مزاحمت کی جاتی ہے۔ ان میں سعودی عرب، کویت اور قطر شامل ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک سینیئر اہلکار کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کوشش قبل ازیں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی کی گئی تھی تاہم خلیجی ممالک اور خاص طور پر سعودی عرب کی طرف سے اسلام آباد پر دباؤ ڈالا گیا کہ ان مدرسوں کے نصاب میں تبدیلی کے حوالے سے سخت اقدامات نہ کیے جائیں۔

یہ ممالک پاکستان میں قائم ان مدرسوں کو فنڈنگ بھی فراہم کرتے ہیں۔ ایک سینیئر حکومتی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ رواں برس صرف دو ماہ کے دوران خلیجی ممالک کی جانب سے قریب 70 ملین پاکستانی روپے غیر قانونی طور پر ان مدرسوں کو بھیجے گئے۔

اس کے علاوہ حکومت کے لیے ایک مشکل یہ بھی ہے کہ پاکستان کے غریب طبقوں کی ان مدرسوں کو بہت زیادہ سپورٹ حاصل ہے جس کے پیھچے معاشی اور ثقافتی کے علاوہ مذہبی وجوہات بھی کار فرما ہیں۔ بہت سے ایسے خاندان جنہیں دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے میسر ہوتی ہے، وہ اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم کے لیے ان مدرسوں میں بھیج دیتے ہیں جہاں انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ مفت رہائش اور کھانے پینے کی سہولیات بھی دی جاتی ہیں۔