1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان روڈ نیٹ ورک کے لحاظ سے دنیا کا اکیسواں بڑا ملک

14 جنوری 2018

آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا اور رقبے کے لحاظ سے دنیا کا تینتیسواں سب سے بڑا ملک پاکستان اپنے روڈ نیٹ ورک کے حوالے سے عالمی درجہ بندی میں اکیسویں نمبر پر ہے۔

https://p.dw.com/p/2qp16
Pakistan Straßen & Verkehr in Islamabad
تصویر: DW/I. Jabeen

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سمیت اس جنوبی ایشیائی ریاست کا مجموعی رقبہ آٹھ لاکھ بیاسی ہزار مربع کلومیٹر یا تین لاکھ اکتالیس ہزار مربع میل کے قریب بنتا ہے۔ شمال میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے سے لے کر جنوب میں بحیرہ عرب کے ساحلوں تک پھیلے ہوئے اس ملک میں پختہ سڑکوں، ہائی ویز، موٹر ویز اور ایکسپریس ویز پر مشتمل قومی روڈ نیٹ ورک کی مجموعی لمبائی تقریباﹰ دو لاکھ چونسٹھ ہزار کلو میٹر ہے۔

مزید پڑھیے: ڈالر کی جگہ یوآن میں تجارت، پاکستان کو فائدہ یا نقصان؟

پاکستان میں اس کے ہمسایہ ملک چین کی مدد سے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر و توسیع کے پینتالیس ارب ڈالر سے زائد مالیت کے جس منصوبے پر کام جاری ہے، وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری یا چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کہلاتا ہے، جسے مختصراﹰ ’سی پیک‘ (CPEC) بھی کہتے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت ملک میں کئی نئی موٹر ویز اور قومی شاہراہیں بھی تعمیر کی جا رہی ہیں۔

Infografik Länge Autobahnstrecken Pakistan ENG
پاکستان کے مختلف علاقوں میں شاہراہوں کی لمبائی سے متعلق ایک گراف

آج سے چار عشرے قبل پاکستان میں وفاقی حکومت نے پانچ بہت اہم بین الصوبائی شاہراہوں کو وفاقی انتظام میں لے کر انہیں ’نیشل ہائی ویز‘ قرار دے دیا تھا، جن کی دیکھ بھال کے لیے ایک نیشنل ہائی وے بورڈ بھی قائم کر دیا گیا تھا۔ انیس سو اکانوے میں حکومت پاکستان نے پارلیمانی قانون سازی کے ذریعے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا تو اس نئے ادارے کو نیشنل ہائی ویز کی منصوبہ بندی، تعمیر، دیکھ بھال اور مرمت کی ذمے داری سونپ دی گئی۔ ساتھ ہی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور ملک کے شمالی علاقوں میں ان اہم شاہراہوں اور ہائی ویز سے متعلق تمام ذمے داریاں بھی اس این ایچ اے (NHA) کے حوالے کر دی گئیں۔

ہائی وے اتھارٹی اور ہائی وے کونسل

پاکستان میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کس طرح کام کرتی ہے اور اس کی کارکردگی کی نگرانی کون کرتا ہے؟ اس بارے میں اسلام آباد میں وفاقی وزارت مواصلات کے ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک میں ہائی ویز سے متعلق قومی پالیسیاں نیشنل ہائی وے کونسل طے کرتی ہے اور یہی کونسل نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا نگران ادارہ بھی ہے۔ این ایچ اے کے قیام کے قریب ایک عشرے بعد تک نیشنل ہائی وے کونسل کی صدارت ملکی وزیر اعظم کے پاس تھی، جو سن دو ہزار ایک میں قانونی ترامیم کے بعد وفاقی وزیر مواصلات کو منتقل کر دی گئی۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا چیئرمین نیشنل ہائی وے کونسل کا رکن بھی ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے: ' چین گوادر کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے ‘

دارالحکومت اسلام آباد میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے متعلقہ امور سے گہری واقفیت رکھنے والے وفاقی وزارت مواصلات کے اعلیٰ ذرائع نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں مجموعی قومی رقبے کے تناسب سے جدید موٹر ویز اور ہائی ویز کی شرح کافی کم ہے لیکن اس میں پچھلے چند برسوں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ ان ذرائع نے بتایا کہ پاکستان میں گزشتہ ایک چوتھائی صدی کے دوران قومی شاہراہوں کے نیٹ ورک میں توسیع کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور سی پیک منصوبے کے باعث مستقبل میں اس شعبے میں مزید بہتری آئی گی۔

Karte Pakistan Autobahnen
سی پیک کوریڈور

پاکستانی روڈ نیٹ ورک کی شہ رگ

پاکستانی وزارت مواصلات کے ان اعلیٰ ذرائع کے مطابق نیشنل ہائی وے اتھارٹی اس وقت چالیس کے قریب قومی شاہراہوں، موٹر ویز، ایکسپریس ویز اور ’اسٹریٹیجک روٹ‘ قرار دی گئی قومی سڑکوں کا منتظم ادارہ ہے۔ ان سرکاری ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان کے قومی روڈ نیٹ ورک کا تقریباﹰ پانچ فیصد حصہ این ایچ اے کے انتظام میں ہے اور ملک میں کمرشل ٹریفک کا 80 فیصد حصہ انہی پانچ فیصد سڑکوں سے گزرتا ہے۔ اس کے علاوہ N-5 کہلانے والی نیشنل ہائی وے کو تو پاکستانی روڈ نیٹ ورک کی شہ رگ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ پورے ملک میں کمرشل ٹریفک کا 65 فیصد حصہ اسی ایک قومی شاہراہ سے گزرتا ہے۔‘‘

این فائیو کہلانے والی پاکستان کی پانچویں قومی شاہراہ صوبہ سندھ کے بندرگاہی شہر کراچی سے شروع ہو کر وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں طورخم تک جاتی ہے، جہاں ایک بہت مصروف سرحدی گزرگاہ پاکستان کو افغانستان سے ملاتی ہے۔ افغانستان کے لیے تجارتی سامان لے کر جانے والے لاکھوں ٹرک اور ٹرالر بھی زیادہ تر یہی پاکستانی ہائے وے استعمال کرتے ہیں۔

رقبے کے لحاظ سے سڑکوں کا تناسب

پاکستان کے کل ریاستی رقبے کو مد نظر رکھا جائے تو شماریاتی حوالے سے سن دو ہزار سولہ تک ملک میں اوسطاﹰ ہر ایک مربع کلومیٹر علاقے میں 0.3 کلومیٹر طویل کوئی نہ کوئی سڑک موجود تھی۔ لیکن اگر نیشنل ہائی ویز کے لیے استعمال شدہ علاقے اور مجموعی قومی رقبے کو دیکھا جائے تو دو سال پہلے پاکستانی ریاست کے ہر ایک مربع کلومیٹر علاقے میں اوسطاﹰ 0.015 کلومیٹر طویل موٹر ویز یا قومی شاہراہیں موجود تھیں۔

پاکستانی ہائی ویز کی کل لمبائی

پاکستانی روڈ نیٹ ورک کا اگر قریب پانچ فیصد حصہ بھی موٹر ویز اور ہائی ویز پر مشتمل ہے، تو اس کی کل طوالت کتنی ہے؟ یہ سوال ڈوئچے ویلے نے پوچھا کاشف زمان سے، جو وفاقی وزارت مواصلات اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی دونوں کے سرکاری ترجمان اور میڈیا افیئرز کے ٖڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے ایک تفصیلی انٹرویو میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’این ایچ اے کے زیر انتظام قومی شاہراہوں اور موٹر ویز کی لمبائی تقریباﹰ تیرہ ہزار کلومیٹر ہے۔ ان میں سے نوتعمیر شدہ موٹر ویز کی طوالت چھ سو کلومیٹر بنتی ہے جب کہ اٹھارہ سو کلومیٹر طویل موٹر ویز زیر تعمیر ہیں۔ یہ کئی مختلف منصوبے ہیں، جو اگلے دو برسوں میں مکمل ہو جائیں گے۔ ان میں سے بھی کچھ پروجیکٹ سن دو ہزار اٹھارہ میں مکمل ہو جائیں گے اور کچھ دو ہزار انیس میں۔‘‘

موٹر ویز کے میگا پروجیکٹ

پاکستان میں اس وقت موٹر ویز کی تعمیر کے کن بہت ہی بڑے بڑے منصوبوں پر کام جاری ہے، اس سوال کے جواب میں کاشف زمان نے کہا، ’’ہمارے میگا پروجیکٹس میں گجرات سے گوارد تک کئی منصوبے شامل ہیں۔ سکھر ملتان موٹر وے بہت طویل ہے۔ لاہور سے ملتان تک دو سو تیس کلومیٹر موٹر وے بھی زیر تعمیر ہے اور حویلیاں خانپور دو سو بیس کلو میٹر طویل شاہراہ پر بھی کام جاری ہے۔ کراچی سے حیدر آباد تک موٹر وے تقریباﹰ مکمل ہو گئی ہے۔ اس مہینے یعنی جنوری میں ہی اس کا افتتاح بھی ہو جائے گا۔ یہ موٹر وے ایک سو چھتیس کلومیٹر طویل ہے۔ اس کے علاوہ فیصل آباد سے ملتان تک موٹر وے بھی زیر تعمیر ہے، جس کے لیے فنڈنگ ایشیائی ترقیاتی بینک نے کی ہے۔ یہ موٹر وے بھی اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گی۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے این ایچ اے کے ترجمان سے جب یہ پوچھا کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا رواں مالی سال کے لیے کل بجٹ کتنا ہے، تو انہوں نے بتایا، ’’ہمیں موجودہ سال کے لیے جو بجٹ جاری ہوا، اس کی مالیت 300 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ ہائی اتھارٹی اس وقت جن منصوبوں پر کام کر رہی ہے، ان کی مالیت 1400 ارب روپے بنتی ہے۔‘‘ یہ بات بھی اہم ہے کہ ایک دہائی قبل اس اتھارٹی کا سالانہ بجٹ قریب 50 ارب روپے ہوتا تھا، جو اب چھ گنا ہو کر 300 ارب روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔

مزید پڑھیے: امریکا پاکستان کے خلاف کون سے اقدامات اٹھا سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کی طویل ترین قومی شاہراہ کون سی ہے، کاشف زمان نے کہا، ’’بہت پرانی شاہراہوں میں سے گرینڈ ٹرنک  یا جی ٹی روڈ قریب بارہ سو کلومیٹر طویل ہے۔ جو موٹر ویز اس وقت استعمال ہو رہی ہیں، ان میں سے لاہور اسلام آباد موٹر وے کی لمبائی تین سو اسی کلومیٹر ہے۔ اس کے علاوہ اگر مختلف حصوں کو شامل کیا جائے تو این فائیو کہلانے والی نیشنل ہائی وے نمبر پانچ 1819 کلومیٹر طویل ہے۔‘‘ کراچی سے طورخم تک یہ ہائی وے ملک کے جنوب کا شمالی پاکستان سے اہم ترین زمینی رابطہ ہے۔

جنوبی ایشیا سے موازنہ

اپنے ہائی ویز نیٹ ورک کے ساتھ پاکستان اس وقت جنوبی ایشیا میں کس مقام پر ہے، اس بارے میں انہوں نے کہا، ’’پاکستان میں چوبیس سو کلومیٹر طویل جو موٹر ویز زیر تعمیر ہیں، وہ اگلے سال کے آخر تک مکمل بھی ہو جائیں گی۔ اس سے بڑا موٹر وے نیٹ ورک جنوبی ایشیا میں فی الحال کسی بھی دوسرے ملک کے پاس نہیں۔‘‘ دو ہزار پندرہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت کے روڈ نیٹ ورک  کی لمبائی پچپن لاکھ کلومیٹر تھی لیکن بھارت کے ہائی ویز کی لمبائی پاکستان سے کم بنتی تھی۔

پاکستانی وزارت مواصلات، پلاننگ ڈویژن اور وزارت خزانہ کے حکام کے علاوہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا بھی کہنا ہے کہ ملک میں شاہراہوں کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے فنڈز ابھی تک ناکافی ہیں، جس میں نجی شعبے کو بھی اپنا کام کرنا ہو گا۔ کاشف زمان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’نجی شعبے کا تعاون ایک ایسا شعبہ ہے، جس پر ہمیں ابھی مزید کام کرنا ہے۔ این ایچ اے کئی پروجیکٹس پر پرائیویٹ سیکٹر کی مدد سے عمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہے، جس میں توسیع ضروری ہے۔‘‘

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ملک اپنے ہاں موٹر ویز نیٹ ورک کو اس لیے ترقی دے رہا ہے کہ علاقائی سطح پر زمینی رابطے بہتر بنائیں جائیں۔ کاشف زمان کے بقول، ’’موٹر ویز نیٹ ورک بڑا اور مضبوط ہو گا تو ہمسایہ ممالک، جن میں چین اور افغانستان بھی شامل ہیں، سے مزید بہتر تعلقات استوار ہو سکیں گے اور وسطی ایشیا تک رسائی بھی ممکن ہو سکے گی۔‘‘

مزید پڑھیے: پاکستان: ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے