1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور ترکی کے صدور کا افغانستان پر تبادلہء خیال

13 اپریل 2011

آج ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں میزبان ملک اور پاکستان کے صدور عبداللہ گل اور آصف علی زرداری کے درمیان ملاقات ہو رہی ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اِس موقع پر افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے امکانات پر بات کی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/10sMD
پاکستان، ترکی اور افغانستان کے صدور، فائل فوٹوتصویر: AP

دونوں صدور کے درمیان ترکی میں افغانستان کے طالبان عسکریت پسندوں کا ایک سیاسی دفتر قائم کرنے کے امکان پر بھی بات چیت ہو گی تاکہ افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔

صدر عبداللہ گل اور اُن کے پاکستانی ہم منصب آصف علی زرداری اپنے مذاکرات کے بعد بدھ کو ہی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنے والے ہیں۔

خبر رساں ادارے AP (ایسوسی ایٹڈ پریس) کے مطابق افغان تنازعے کے کسی بھی حل کے لیے پاکستان کی حمایت اشد ضروری ہے، خاص طور پر پاکستان کی سکیورٹی فورسز میں موجود اُن عناصر کی، جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اُن کے افغانستان میں طالبان مزاحمت کاروں کے ساتھ روابط ہیں۔

Burhanuddin Rabbani Afghanistan Dschirga Archivbild
ہائی کونسل فار پیس (HCP) کے چیئرمین برہان الدین ربانیتصویر: picture-alliance / dpa

افغان صدر حامد کرزئی نے گزشتہ سال دسمبر میں ترکی کے ایک دورے کے موقع پر استنبول میں ایسی تجاویز کا ذکر کیا تھا، جن کے تحت طالبان افغانستان میں مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں ترکی یا کسی اور غیر جانبدار ملک میں اپنا نمائندہ دفتر قائم کر سکتے ہیں۔ کرزئی نے ہتھیار ڈال دینے اور افغان آئین کو تسلیم کرنے والے طالبان کو واپس عوامی دھارے میں لانے کے لیے گزشتہ برس ہائی کونسل فار پیس (HCP) قائم کی تھی۔

AP کے مطابق سخت موقف رکھنے والے طالبان نے، جن کے قائدین کا ہیڈ کوارٹر جنوب مغربی پاکستان میں ہے، امن کے قیام کے سلسلے میں افغان حکومت کی کوششوں کو کھلے عام مضحکہ خیز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جب تک غیر ملکی دستے افغان سرزمین چھوڑ کر چلے نہیں جاتے، کسی قسم کے مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ آج کل ترکی کے ایک دستے سمیت تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار غیر ملکی فوجی افغانستان میں سرگرمِ عمل ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اِن میں سے کچھ فوجی اِس سال جولائی سے اپنے اپنے وطن واپس جانا شروع ہو جائیں گے، یہاں تک کہ سن 2014ء تک امن و امان کی ذمہ داریاں زیادہ سے زیادہ افغان فوج اور پولیس کو منتقل ہو جائیں گی۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں