1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور بھارت میں ایک دوسرے کے قیدی

ندیم گل10 دسمبر 2008

پاکستانی جیلوں میں قید بھارتی شہریوں اور بھارتی جیلوں میں پڑے پاکستانیوں کی تعداد تقریبا ایک ہزار بتائی جاتی ہے۔ تاہم یہ قیدی ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے مستقبل سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/GDKk
ممبئی حملوں کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات ایک مرتبہ پھر کشیدہ ہونے سے ان لوگوں کے لیے صورت حال اور بھی غیریقینی ہو گئی ہے۔

ممبئی حملوں کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات ایک مرتبہ پھر کشیدہ ہونے سے ان لوگوں کے لیے صورت حال اور بھی غیریقینی ہو گئی ہے۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قیدخانہ بھی ملا تو پڑوسی ملک میں، دونوں جانب کی حکومتیں ان میں سے بعض قیدیوں کو رہا کرکے کبھی کبھی جذبہ خیرسگالی کا اظہار تو کرتی ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دونوں جانب متعدد افراد سزائیں پوری کرنے کے باوجود رہا نہیں ہوسکے۔

پاکستان اور بھارت کی جیلوں میں پڑے ایک دوسرے کے ملک کے شہریوں کو مختلف نوعیت کا سامنا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے رہنما انصار برنی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں بتایا کہ ان قیدیوں میں زیادہ زیادہ تعداد ماہی گیروں کی ہے۔ ان کا کہنا تھا: "میں نے دونوں ملکوں کے لوگوں سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ تم لوگ سمندر میں ایک دیوار بنا دو۔ اس کے ایک طرف لکھ دو پاکستان اور دوسری طرف ہندوستان، تاکہ کشتی لے کر جانے والے کو پتا ہو کہ اب وہ ہندوستان کے پانی میں یا پاکستان کے۔"

ماہی گیروں کے علاوہ پاک بھارت سرحدی علاقوں سے بعض لوگ بھولے بھٹکے بھی پڑوسی ملک میں داخل ہوجاتے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے وکیل بی ایس بلوریا نے نئی دہلی سے ڈوئچے ویلے کو بتایا:"بھارت میں پاکستانی قیدیوں کی تین اقسام ہیں۔ ایک وہ جن پر مقدمات چل رہے ہیں اور سپریم کورٹ نے چھ مہینے میں مقدمات نمٹانے کا حکم دیا ہے۔ دوسرے وہ قیدی ہے جو اپنی سزائیں مکمل کر چکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا ہے کہ انہیں رہا کر کے وطن واپس بھیج دیا جائے۔ تیسرے قسم سیکیورٹی خدشات کے تحت گرفتار کیے گئے لوگوں کی ہے جن کے بارے میں سپریم کورٹ نے حکومت سے پوچھا کہ انہیں کس ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔"

Gefangenenaustausch Israel Hisbollah
ماہی گیروں کے علاوہ پاک بھارت سرحدی علاقوں سے بعض لوگ بھولے بھٹکے بھی پڑوسی ملک میں داخل ہوجاتے۔تصویر: AP

بی ایس بلوریا کا کہنا ہے کہ بھارت میں قید پاکستانیوں کی تعداد 500 سے زائد ہے۔ تاہم ان میں سے 200 پر سنگین جرائم کے مرتکب ہونے کا الزام ہے۔

بھارت اور پاکستان میں جہاں قیدیوں کی رہائی کو ہم آہنگی کے فروغ کے لیے استعمال کیا گیا وہیں اس حوالے سے معاملات خاصے پیچیدہ بھی رہے ہیں۔اس کا اندازہ پاکستان کی جانب سے اسی سال 35 برس سزا کاٹنے والے کشمیر سنگھ کی رہائی اور ابھی تک سزائے موت کا انتظار کرنے والے سربجیت سنگھ اور اسی سال بھارتی جیلوں میں کم از کم دو پاکستانی قیدیوں کی ہلاکت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ صورت حال کے بارے میں بی ایس بلوریا نے بتایا: " ایک مہینہ پہلے تک صورت حال بہت اچھی تھی۔ دونوں ملکوں نے ریٹائرڈ ججز پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی تھی کہ ان کی سفارش پر قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ لیکن اب 15 دسمبر کو سپریم کورٹ میں پاکستانی قیدیوں کی ایک پٹیشن ہے۔ اس کے بعد تازہ صورت حال کا پتا چل جائے گا۔"

انصار برنی نے بتایا کہ پاکستان میں تقریبا 500 بھارتی قیدی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے جو لوگ جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں انہیں تو سزا ملے لیکن جنہیں صرف پاکستانی یا بھارتی ہونے پر شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے، انہیں رہا کر دیا جائے۔ پاکستانی میں سزائے موت کا انتظٓار کرنے والے بھارتی سربجیت سنگھ کے بارے میں انصار برنی نے کہا:"میں نے سربجیت کے کاغذات دیکھے ہیں۔ مجھے حیرت ہے اسے سزائے موت کیسے سنائی گئی جبکہ اس کے خلاف گواہی دینے والوں نے بتایا کہ انہوں نے پولیس کے دباؤ میں بیان دیے۔ میں نہیں جانتا کہ سربجیت کوئی جرم کیا یا نہیں، لیکن اس کے کاغذات دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ قاتل نہیں ہے۔"

ماہرین کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان قیدیوں کی شناخت بھی ایک مسئلہ ہے۔ یعنی بعض قیدیوں کی قومیت کی نشاندہی نہیں ہو پاتی جس کی وجہ سے ان کی رہائی بھی عمل میں نہیں آتی۔

بھارت پاکستان پر یہ الزام بھی لگاتا رہا ہے کہ اسلام آباد اپنے ہاں قید بھارتی جنگی قیدیوں کے بارے میں نئی دہلی کو معلومات فراہم نہیں کرتا جبکہ پاکستان کا الزام ہوتا ہے کہ نئی دہلی حکومت گرفتار پاکستانی شہریوں کے بارے میں اسلام آباد کو مطلع نہیں کرتی۔

بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستانی جیلوں میں 74 جنگی قیدی ہیں لیکن پاکستان اس بات کو تسلیم ہیں کرتا۔

پاکستان اور بھارت ایسے بین الاقوامی سمجھوتوں پر دستخط کر چکے ہیں جن کے تحت ایک دوسرے کے شہریوں کو قید کرنے کی صورت میں انہیں فوری طور پر اپنے ملک کے سفارتی نمائندوں تک رسائی دینا ضروری ہے۔